Saturday 17 January 2015

urdu poetry 901 to 1000

انتہاءیادِ یار اور کثرتِ غمِ دوراں
ایک دل ہے بچارہ کہاں کہاں تڑپے


کبھی تقدیر کا ماتم کبھی محبوب سے شکوہ
اے منزلِ محبت تیرے ہر موڑ پہ رونا آیا


آج افسوس ہو رہا ہے حالِ زندگی پر
کاش حد سے زیادہ محبت نہ کی ہوتی


کل کسی اور نے خرید لیا تو گلہ نہ کرنا
اسی لیے سب سے پہلے تیرے شہر میں آئے ہیں


جی رہی ہو نہ تم اچھی بات ہے
نام تک نہ لینا اب محبت کا


ہر بار مجھ سے وہ نگاہیں پھیر لیتی ہے
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہے بنا کے آنکھیں اُس کی


بے رُخی کبھی کسی کو نہیں جیت سکتی
محبت سچی ہو تو جانے والے بھی لوٹ آتے ہیں


میں نازک ہوں پانی کے بلبلے کی طرح
ذرا سا ٹکراﺅ گے تو ڈھنڈتے رہ جاﺅ گے


دلِ معتبر سمجھ جا تیرے دن آخری ہیں
میں جب بھی گیا اُس کی گلی تجھے بیچ آﺅ گا


ادھورا سا میں محسوس کرتا ہوں خود کو
نہ جانے کون چھوڑ گیا ہے مجھے تعمیر کرتے کرتے


نہ جانے وہ کون سی مجبوریوں کی قیدی تھی
بے وفا ہوتی نہیں ہر چھوڑ کے جانے والی


آزاد کر دوں گا تجھ کو اپنی محبت کی قید سے
کرے جو ہم سے بہتر تمہاری قدر پہلے وہ شخص تو تلاش کر


عشق وہ واحد جنت ہے جس میں
حوریں خود ہی عذاب دیتی ہیں


موت سے پہلے بھی ہوتی ہے ایک موت
دیکھو ذرا تم جدا ہو کر مجھ سے


توں بھی بے وفا نکلی اوروں کی طرح
سوچا تھا تجھ سے تو زمانے کی بے وفائی کا گلہ کریں گے


کل میں نے عجیب قصّہ سنا ایک شخص کی موت کا
یادوں کے بوجھ تلے دب کر مر گیا


بیٹھا ہے کس خیال میں اے قلبِ نامراد
اُس گھر میں کون آئے گا جس میں دیا نہ ہو


کسی نالائق طالبِ علم کی طرح
دل نے تیرے نام کے رٹے لگا رکھے ہیں


ہم قسمت کی لکیروں کو چیر کر اُسے اپنا بنا لیتے
بس ایک بار اُس نے میری ہونے کا دعواءتو کیا ہوتا


اب دیکھتے ہیں کس کی جان جاتی ہے
میں نے اُس کی اُس نے میری قسم کھائی ہے


اُسے یہ کون بتلائے اُسے یہ کون سمجھائے
بہت خاموش رہنے سے تعلق ٹوٹ جاتے ہیں


زندکی گزر رہی ہے امتحانوں کے دور سے
ایک زخم بھرتا نہیں دوسرا تیار کر دیتے ہیں لوگ


تمام عمر سہاروں کی آس رہتی ہے
تمام عمر سہارے فریب دیتے ہیں


اُس کے بعد تمام عمر میخانوں میں گزرا دی میں نے
مگر نشہ اُس کے ہونٹوں جیسے کسی بوتل نے نہ دیا


خوشبو گئی نہ دل سے نہ یادوں سے بے روخی
ظالم کے سارے نقش بڑے پائدار تھے


اچھا ہوا کہ معلوم ہو گیا کہ آپ کی محبت اب محبت نہیں رہی
ورنہ ہم تو اپنا گھر تک چھوڑ رہے تھے تیرے دل میں رہنے کے لیے


قدر کرنے والوں کو جب نظروں سے گرا دیا جائے
تو اکثر وفا والوں کو بے وفائی کرنی پڑتی ہے


تجھے دیکھنے کو آ جاتے ہیں تیری گلیوں میں
ورنہ سارا شہر باقی ہے فقط آوارگی کے لیے


دلچسپ تھا اِس قدر کہ معلوم نہ ہو سکا
کیسے؟ کہاں؟ اور کب میرا بچپن چلا گیا


طلب موت کی کرنا گناہِ کبیرہ ہے
مرنے کا شوق ہے تو آﺅ تمہیں عشق کی تعلیم دوں


سیکھا دی بے وفائی بھی تمیں ظالم زمانے نے
کہ تم جو سیکھ لیتے ہو وہ مجھ پہ آزماتے ہو


لمحوں میں قید کر دے جو صدیوں کی چاہتیں
حسرت رہی کہ ایسا کوئی اپنا بھی یار ہو


بات مقدر پہ آ کے رہ گئی ورنہ
کوئی کسر تو نہ چھوڑی تھی اُسے چاہنے میں


سو جائیں گے یہ دنیا والے مگر نیند نہ آئے گی ان آنکھوں میں
کیوں کہ عشق وہ درد ہے جو موت سے پہلے سونے نہیں دیتا


سنو! اتنا قریب آﺅ کہ
سانسیں مشورہ کر لیں


مفت کے احسان نہ لینا یارو
دل ابھی اور بھی سستے ہوں گے


تم لوٹ کے آﺅ تو شاید کوئی بات بنے
ورنہ طبیبوں کا تو انکار ہی ہے


وہ اچھا ہے تو بہتر بُرا ہے تو قبول
مزاجِ عشق میں عیب و ہنر نہیں دیکھے جاتے


کیسی نازک و دل فریب وہ گھڑی تھی رات کی
یار نے سینے سے لگا رکھا تھا اور پوچھا سوتے کیوں نہیں


رات ہے سناٹا ہے وہاں کوئی نہ ہو گا
اُن کے درودیوار چلو چوم کے آتے ہیں


سنو! میرے کچھ غم اُدھار رکھ لو
بہت دن ہو گئے سویا نہیں ہوں میں


اُس جیسا ہونے کو بہت جی چاہتا ہے
کیا کروں؟ ہو جاﺅں پھر بے وفا؟


اور تو کچھ نہیں چاہیے مجھے تجھ سے اے زندگی
بس ایک وہ شخص لوٹا دے جو مجھے تجھ سے بھی پیارا ہے


مت دیکھا کرو جاگتی آنکھوں سے خواب
اگر چاہنے سے سب کچھ ملتا تو آج تم ہمارے ہوتے


نہ جلاﺅ نہ دفناﺅ سرعام سڑک پہ پھینک دہ
یہ عشق سبھی کا مجرم تھا ہر آتا جاتا بدلہ لے


ہوں طبیت سے بہت مجبور
ورنہ دل لگانا ثواب تھوڑی ہے


تسلی سی ذرا ہو جائے گی فقط اتنا تو بتا دو
تجھے بھی ہچکیاں آتی ہے جب میں یاد کرتی ہوں


جرم میرا عشق تھا نہ
تو سزائے موت دیتی یہ تنہائی کیوں


سنا ہو گا میرا دل پتھر کا ہے
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اسے بھی توڑ گئے


برباد کرنے کے اور بھی طریقے تھے
نہ جانے تمہیں محبت کا ہی کیوں خیال آیا


کب دو گے نجات ہمیں رات کی تنہائی سے
اے عشق معاف بھی کر میری عمر ہی کیا ہے


اے عشق توں نے تو رولا کے رکھ دیا
پوچھ میری ماں سے کتنا لاڈلہ تھا میں


بہت شوق ہے نہ تجھے بحث کا
آ بیٹھ، بتا وفا کیا ہے؟؟؟


سو ٹکڑے کیے اُس نے میرے دل کے
پھر خود ہی رو پڑی ہر ٹکڑے پہ اپنا نام دیکھ کر


اس سے بڑھ کر کیا سزا تھی جو وہ دیتی مجھ کو
کر گئی مجھے تنہا مگر اپنا بنانے کے بعد


مجھ کو ہیر رانجھے کی کہانیاں نہ سنا اے عشق
سیدھا سیدھا بول کہ میری جان چاہیے


لوگ جو بیچتے پھرتے ہیں مہنگے داموں
ملے جو مفت بھی تو میری توبہ ہے عشق سے


بڑا ہی عجیب قصّہ ہے نہ کہ میرے ہی دل نے مجھے
اپنے مفاد کی خاطر مجھے برباد کر ڈالا


وہ میری غزل کو پڑھ کے پہلو بدل کے بولے
کوئی قلم چھینے اِس سے یہ تو جان لے چلا ہے


کر گیا نہ عشق برباد
اور گیت گاﺅ محبت کے


کمال کا حوصلہ دیا ہے ربّ نے ہم انسانوں کو
واقف ہم اگلے پل سے نہیں اور وعدے زندگی بھر کے کرتے ہیں


یہ میری تلاش کا جرم ہے یا میری وفا کا قصور
جس دل کو جتنا بھی قریب لاﺅ وہ اتنا ہی بے وفا نکلتا ہے


تجھے خراجِ محبت ادا کروں گا ضرور
ذرا میں یاد تو کر لوں کوئی وفا تیری


کوئی ہنر کوئی رشوت کوئی طریقہ تو بتاﺅ؟؟؟
کہ دل بھی نہ ٹوٹے وہ ملے بھی نہ اور چین بھی آ جائے


وفا کا نام سنا تھا پرانے لوگوں سے
ہمارے عہد میں تو یہ حادثہ ہوا ہی نہیں


کیا پھر سے نہیں ہو سکتا کہ ہم جان مانگیں
اور تم لگا کہ گلے سے کہو اور کچھ؟


ماضی کے چار دنوں نے چھین لی میری ہنسی
اب حال میں، فِل حال میرا حال نہ پوچھ


بہت ڈر لگتا ہے مجھے ان لوگوں سے
جو دل میں رہ کر ہی دل پہ وار کرتے ہیں


اُس سے بچھڑیں گے تو مر جائیں گے
جان لیوا خوف تھا ہوا کچھ بھی نہیں


دل میں ہوتی تو بھلا نہ پاتے تمہیں
ذہن سے تو اکثر باتیں نکل ہی جاتی ہیں


بہت نظر انداز کرتے ہو تم مجھے
انہی نظروں سے ڈھونڈو گے جب ہم نہ ہوں گے


کمبخت مانتا ہی نہیں دل اُسے بھولانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاﺅں پڑ جاتا ہے


ہماری تو وفا بھی تمہیں گوارہ نہیں
کسی بے وفا سے نباﺅ گی تو بہت یاد آﺅں گا


اُس کی نظروں میں میری تباہی کے واسطے
اتنا خلوص تھا کے شکایت نہ کر سکے


ستارے کچھ بتاتے ہیں نتیجے کچھ نکلتے ہیں
بڑی حیرت میں ہیں میری ہتھیلی دیکھنے والے


محبت عام سا اک واقعہ تھا
ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے


دنیا تو وفاﺅں کا صلہ دے چکی مجھے
تو بھی میرا سلوک میرے منہ پہ مار دے


آج تو اندازِ بیان ہی کچھ اور تھا
مذاق مذاق میں میری حیثیت بتا دی اُس نے


سنا ہے محبت کا شوق نہیں تمہیں
مگر برباد کمال کا کر لیتے ہو


شک تھا اُس کو کہ رات کو میں کہیں بوسہ نہ لے لوں
گالوں پہ رکھ کے سوئی کلائی اور ہونٹوں کو کھلا ہی چھوڑ دیا


تم بہت دلنشیں تھی، پر جب سے
ہوئی ہو کسی کی وللّہ زہر لگتی ہو


کیا پھر سے نہیں ہو سکتا کہ ہم جان مانگیں
اور تم لگا کر گلے سے کہو اور کچھ؟؟؟


کیا خوب تھا اُس کا اندازِ قتل بھی
زہر دیا مجھ کو وہ بھی ہونٹوں پہ لگا کر


یاروں! اک مشورہ تو دو؟؟؟
محبت کا نام بدل کر موت نہ رکھ دیں؟


آغازِ عشق تو خوب تھا انجام کا کیا کہوں
پہلے تو دلگی تھی اب دل کو جا لگی


کرتا ہوں اِن کا ادب رکھتا ہوں انہیں سینے سے لگا کر
یہ درد یہ تنہائیاں تحفے ہیں کسی کے


میں تو آوارہ ہوں بدنام ہوں زمانے میں مگر!!!
جو لوگ مقدس ہے وہ وفا کیوں نہیں کرتے؟؟


بِک رہا تھا بازارِ محبت میں میری عزت کا لہو
مُڑ کر جو دیکھا تو میرا یار ہی خریدار نکلا


تیری محبت سے لے کر تیرے الوداع کہنے تک
میں نے صرف تمہیں چاہا تجھ سے تو کچھ نہیں چاہا


اب کے بار اے کاش ایسا ہو جائے
دسمبر بھی گزر جائے اور میں بھی


بے نشاں منزلوں کے سفر پر نکلو گے تو جانوں گے
دلوں کے مسافر کیوں راتوں کو سونا بھول جاتے ہیں


اُس نے پھر سے سلام بھیجا ہے
لگتا ہے پھر کسی سے بچھڑ گئی ہے وہ


سنا ہے موت برحق ہے
تو اِسے کہو عشق سے پہلے آ جائے


اُس نے بھلا دیا تو شکوہ نہ کر اے دل
یاروں کو تو بڑے اختیار ہوتے ہیں


خیالِ یار میں نیند کا تصور کیسا
آنکھ لگتی ہی نہیں آنکھ لڑی ہے جب سے


کیا بات ہے جو کھوئے کھوئے سے رہتے ہو
کہیں لفظ محبت سے محبت تو نہیں کر بیٹھے؟؟؟


لگتا ہے اِس بار محبت ہو ہی جائے گی
میں نے خواب میں خود کو مرتے ہوئے دیکھا ہے


اس عشق سے بچ کے رہنا بہت بُری بلا ہے
اس ظالم کے ستائے ہوئے نمازی بھی ملے ہیں مجھے میخانوں میں


آج اتنی جام پلا دے کہ جٹ کی آنکھیں ہی بند ہو جائیں
سنا ہے آنکھیں بند ہو جائیں تو دوست بھی کبھی کبھی یاد کر لیتے ہیں


اے عشق ذرا اک بات تو بتا؟؟؟
کیا سب کو آزماتے ہو یا میرے ساتھ دشمنی ہے


ہم نے سوچا تھا کہ تمہیں اک منفرد پھول دیں گے
پر توں جُدا ہی ایسی موسم میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ تک خالی تھے


برسوں سجاتے رہے ہم کردار کو
کچھ لوگ بازی لے گئے صورت سوار کر


کسی کے بچھڑنے سے انسان مر نہیں جاتا
بس ذرا جینے کے انداز بدل جاتے ہیں


جاتے جاتے اُس نے ہمیں ایک جملہ کہہ کر رولا دیا
جب غم برداشت نہیں کر سکتے تو محبت کیوں کرتے ہو


مختصر یہ کہ اب تیرے بغیر
زندگی کی سمجھ نہیں آتی


پہلے اُسے کی تھی جستجو دل کو
آج میں اپنی تلاش میں ہوں


دیکھتا ہوں تصویرِ یار تو آتا ہے رشک
ہر بات لاجواب تھی اگر بے وفا نہ ہوتی


غمِ زندگی سے فرصت ہی نہ ملی ورنہ
ہم اگر کسی کے ہیں تو بس تمہارے ہیں


ادھوری محبت ملی تو نیندیں بھی روٹھ گئی
گُم نام زندگی تھی تو کتنے سکون سے سویا کرتے تھے


تیری بے روخی کا ایک دن انجام یہی ہو گا
آخر بھلا ہی دیں گے تجھے یاد کرتے کرتے


تو نے تو کہا تھا ہر شام تیرے ساتھ گزاروں گی
تم بدل گئی ہو یاں تمہارے شہر میں شام نہیں ہوتی


ہر رات کا اندھیرا ہونے سے پہلے حال پوچھ لیا کر
ایسا نہ ہو کہ ہم مٹی میں سوئے رہیں اور تم اندھیروں میں ڈھنڈتی رہو


بے بسی سے اُس کی آنکھوں میں بھی آ گئے آنسو
جب وہ دینے لگی مجھے مشورہ جدائی کا


سارے وہم تیرے اپنے ہیں
ہم کہاں تم کو بھول پائیں گے


اک جہنم ہے میرا سینا بھی
آرزو کب کی دب گئی ہو گی


اُسے کہنا تیری بے وفائی نے میرا یہ حال کر دیا ہے
میں خود تو نہیں روتا لوگ مجھے دیکھ کے روتے ہیں


وہ ہم کو پتھر اور خود کو پھول کہا کرتی تھی
اُسے کیا پتہ پتھر تو پتھر ہی رہتے ہیں پھول ہی مرجھایا کرتے ہیں


مجھے روتا دیکھ کر وہ یہ کہہ کر چلی گئی
روتا تو ہر کوئی ہے کیا میں اب سب کی ہو جاﺅں؟؟؟


مصروفیت میں آتی ہے بے حد تیری یاد
فرصت میں تو تیری یاد سے فرصت نہیں ملتی


ہو جائے تو ختم نہیں ہوتا
یہ عشق بھی غریب کا قرض ہو جیسے


وہ اک شخص بہت عزیز ہے مجھے
جو چُپ کے بیٹھا ہے مجھ میں میری جاں کی طرح


کس نے کہا یہ ممکن ہے
میں رہوں مجھ میں تو نہ رہے


اک عمر سے عادت ہے تیرے شام و سہر کی
اب کون تیری یاد کے معمول کو بدلے


رات بھر سونے نہیں دیتا
عشق بھی دودھ پیتا بچہ ہو جیسے


جان جی ہر کام کا ایک وقت ہے
دلِ بے چین کو قرار آ ہی جائے گا


فاصلے بڑھ گئے ہیں صاحب!
اور کمبخت محبت بھی


اُس کی آنکھیں تو سمندر سے بھی گہری تھی
تیرنا تو آتا تھا مگر ڈوبنا اچھا لگا


اک یہ خوف کہ کوئی زخم نہ دیکھ لے دل کا
اور اک حسرت کہ کاش کوئی دیکھنے والا ہوتا


زخم خرید لیے ہیں بازارِ درد سے
دل ضد کر رہا تھا مجھے محبت چاہیے


کسی کے دل کو جوڑنے میں اتنا مگن تھا میں
ہوش تب آیا جب اپنے دل کے ٹکڑے دیکھے


ٹوٹے ہوئے شیشے کو کبھی دیکھا ہے تو نے
اُسی طرح تیری یاد میں بکھرے پڑے ہیں ہم


خواب میں بھی وہ اب نہیں آتی
نفرتیں ان دنوں عروج پے ہیں


چوما ہے اپنی آنکھوں کو رکھ رکھ کے آئینہ
جب بھی ہوئی ہے خواب میں زیارت جناب کی


لے آﺅ دامنِ یوسفؑ سے کچھ حُسن کی جھلک
ہماری بھی خواہش ہے کوئی چاہے ہمیں زلیخا کی طرح


توبہ وہ گیلے لب وہ آنکھیں وہ غصب کا کاجل
اُف تو ہی بتا یہ دل مرتا نہ تو اور کیا کرتا


محبت کر تو لی غالب ذرا سا حوصلہ رکھو
گھبرا گئے جدائی سے؟ ابھی تو رسوا بھی ہونا ہے


تمہاری یاد کے پیوند لگ گئے ورنہ
میرے وجود کی اُڑھ جاتی دجیاں ساری


یہ اُداس لمحے میری تنہائی کو اُس مقام پے لے جاتے ہیں
کہ مجھے تم، اک تم، پھر تم، اور بس تم ہی یاد آتی ہو


حاصلِ عشق کیا بتاﺅں تجھے
قُرب بویا تھا حجر کاٹا ہے


ایک تم کو اگر چورا لوں میں
یہ زمانہ غریب ہو جائے


میرے گھر کو لوگ آسیب ذدہ سمجھتے ہیں
کہتے ہیں شب کے پچھلے پہر آوازیں آتی ہیں کسی کے رونے کی


یہ جو خود شکستہ سے ہیں کہکے میرے دل کو لگتا ہے بوجھ سا
وہ جو اپنے آپ میں مست ہو مجھے اُس ہنسی کی تلاش ہے


ہم نے ہر دکھ کو محبت کی عنایت سمجھا
ہم کوئی تم تھے؟ کہ تم سے شکایت کرتے!!!


آﺅں گا میں یاد تجھ کو اک بار پھر سے
جب تیرے اپنے ہی فیصلے تجھے برباد کریں گے


اُسے تو کھو دیا لیکن اب نہ جانے کس کو کھونا ہے
لکیروں میں جدائی کی علامت اب بھی باقی ہے


تم نے بھی ہماری یاد کو دِیے کی طرح سمجھا ہے
رات گہری ہوئی تو جلا دیا صبح ہوئی تو بجھا دیا


لوگ سینے میں قید رکھتے ہیں
ہم نے سر پہ چڑھا رکھا ہے دل کو


اُس کا وعدہ بھی بڑا عجیب تھا کہ زندگی بھر ساتھ نبھاﺅنگی
میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ محبت کے ساتھ؟ یاں بے وفائی کے ساتھ؟


کیوں اُلجھتی ہو ان سوالوں میں
بے وفا تم نہیں تو ہم ہوں گے


عشق یونہی نہیں ہوا
بات اُس میں کوئی جدا سی تھی


اک محبت کا مشغلہ لے کر
زندگی خوب کی تباہ ہم نے


آج تفصیل نہیں بس اتنا سنو
قسم سے بہت یاد آتے ہو تم


نا اتنا یاد آﺅ کہ میں خود کو تم سمجھ بیٹھوں
مجھے احساس رہنے دو میری اپنی بھی ہستی ہے


ہوں طبیت سے بہت مجبور
ورنہ دل لگانا ثواب تھوڑی ہے


بڑے شوق سے مر جائیں گے مگر شرط یہ ہے
تم سامنے بیٹھ کے سانسوں کا تسلسل ٹوٹتا دیکھو


ہر بار تم کیوں مجھ کو غم دیتی رہتی ہو
میں مضبوط تو بہت ہوں پر پتھر تو نہیں


احساسِ محبت کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے
تیرے بغیر بھی ہم تیرے ہی رہتے ہیں


مجھے احباب کی لمبی قطاروں سے نہیں مطلب
اگر تم دل سے میرے ہو تو بس اک تم ہی کافی ہو


کون میرے دل کی دیکھ بھال کرے
روز تھوڑا سا ٹوٹ جاتا ہے


زخم خرید لیے ہیں بازارِ درد سے
دل ضد کر رہا تھا مجھے محبت چاہیے


بڑی دلکش دعا دی کسی نے ہمیں جینے کی
صدا خوش رہو تم اپنی تنہائیوں کے ساتھ


تجھ میں اور مجھ میں فرق صرف اتنا ہے
تیرا کچھ کچھ ہوں میں اور میری سب کچھ ہے تو


کرو بڑے شوق سے محبت اے چاہنے والو
مگر سوچ لینا کسی کام کے رہو گے بچھڑنے کے بعد


ہمیں تو کب سے پتہ تھا کہ تو بے وفا ہے
تجھے چاہا اس لیے کہ شائد تیری فطرت بدل جائے


چلے آئے ہیں آنکھوں میں اُس کا عکس پا کر
یہ آنسو آج پھر کوئی تماشہ چاہتے ہیں


استادِ عشق سچ کہا تو نے بہت نالائق ہوں میں
مدت سے ایک ہی شخص کو یاد کر رہا ہوں


کہاں ڈھنڈتے ہو عشق کو تم اے بے خبر
یہ خود ہی ڈھونڈ لیتا ہے جسے برباد کرنا ہو


تیری حالت سے لگتا ہے تیرا اپنا تھا کوئی
اتنی سادگی سے برباد کوئی غیر نہیں کرتا


بے وفا لوگوں کی آنکھیں دیکھ کر ہی انہیں پہچان لیتا ہوں میں
آخر ہم نے بھی زندگی گزاری ہے اک بے وفا کے ساتھ


اُس کی گہری نیند کا منظر کتنا دلکش ہوتا ہے
تکیہ کہیں، زلفیں کہیں، اور وہ خود کہیں


منہ چھپا کر اب کیوں روتا ہے سینے میں
اے دل میری توں نے مانی کب تھی


قضا ہو گئے مجھ سے سجدے سارے
اے عشق سچ بتا کہیں توں کافر تو نہیں؟؟؟؟


پہلی ملاقات تھی اور ہم دونوں ہی بے بس
وہ زلفیں نہیں سنبھال پائی اور میں خود کو


میں نے علاجِ عشق جو پوچھا طبیب سے
دھیمے سے لہجے میں بولا! صبح دوپہر شام زہر پیا کر


خدا نے اُسے تیرے نصیب میں لکھا ہی نہیں
چھوڑ دے یاد کرنا اُسے خود کو بدنصیب کہہ کر


کہہ دو اُسے اگر جدائی عزیز ہے تو روٹھ جائے ہم سے
وہ جی سکتی ہے تو مر ہم بھی سکتے ہیں


موت بھی کم خوبصورت تو نہ ہو گی
جو بھی اس سے ملتا ہے زندگی چھوڑ جاتا ہے


عجیب مقام پہ آ پہنچا ہے قافلہ دل کا
زندگی ڈھونڈنے نکلے تھے موت سے بھی گئے


سنا ہے عشق سے تیرے بہت بنتی ہے
اک احسان کر اُس سے میرا قصور تو پوچھ


بھوکا اور پیاسہ رکھا کمسن دیوانے کو
اے عشق تیرا اندازِ ستم ہے یزیدوں جیسا


گلہ کیسا جو اُس نے توڑ ڈالا
میں خود بھی تنگ تھا اس دل کے ہاتھوں


قضا ہو گئے مجھ سے سجدے سارے
اے عشق سچ بتا کہیں تو کافر تو نہیں؟؟؟


سزا بن جاتی ہے گزرے ہوئے وقت کی یادیں
نہ جانے کیوں چھوڑ جانے کے لیے زندگی میں آتے ہیں لوگ


میں کسی کے دل کو جوڑنے میں اتنا مگن تھا
ہوش تب آیا جب اپنے دل کے ٹکڑے دیکھے


تیری یاد میں خود کو اس طرح جلا دیتے ہیں
آگ سے لکھتے ہیں تیرا نام اور آنسوں سے بجا دیتے ہیں


مچلتے رہتے ہیں ذہنوں میں وسوسوں کی طرح
حسین لوگ بھی وبالِ جان ہوتے ہیں


کتنی مشکل سے کٹ رہا ہے یہ دلکش سا منظر
بارش بھی ہو رہی ہے اور تم یاد بھی آ رہی ہو


میری تبایوں میں تیرا ہاتھ ہے مگر
میں سب سے کہہ دیتا ہوں مقدر کی بات ہے


کون پوچھتا ہے پنجرے میں بند پنچھیوں کو
یاد وہی آتے ہیں جو اُڑھ جاتے ہیں


سنو! تم عزم والے ہو بلا کا حوصلہ رکھتے ہو تمہیں کچھ بھی نہیں ہو گا
مگر سوچو! جیسے تم چھوڑ جاﺅ گے اُسے تو ٹھیک سے شاید بچھڑنا بھی نہیں آتا


واہ! میرے محبوب بڑی جلدی خیال آیا میرا
بس کرو چومنا اب اُٹھنے بھی دو جنازہ


سو بار کہہ میں نے انکار ہے الفت سے
ہر بار صدا آئی توں دل سے نہیں کہتا


تیری یادوں کی بارش جب بھی برستی ہے
میں بھیگتا ضرور ہوں مگر پلکوں کی حد تک


مٹی کا لباس اوڑھنے کی دھیر ہے مجھے
ہر شخص پھر ڈھنڈے گا آنکھوں میں نمی لے کر


آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھے محوِ گفتگو
باہوں میں آنے والے تھے کہ آنکھ کھل گئی


اب آئے ہو تو برس کر ہی جانا اے بادل
کہیں ہماری طرح تمہاری بھی حسرت باقی نہ رہ جائے


پھر وفائیں بھی کرو گی تو کوئی نہ پوچھے گا
یہ تیرے سارے ستم فقط میرے مر جانے تک ہیں


مجھے معلوم ہے کہ وہ میری کبھی نہیں ہو گی
بس ذرا شوق ہے اُس کی خاطر زندگی تباہ کرنے کا


اُسے کہو میرے زخموں کو ہوا مت دینا
یہ غریبوں کے دل ہیں انہیں درد بہت ہوتا ہے


کاش کہ تم موت ہوتی
یقیں تو ہوتا کہ ایک دن آﺅ گی

 

0 comments: