Saturday 17 January 2015

urdu poetry 301 to 400

تمنا تیرے وجود کی ہوتی تو دنیا سے چھین لیتے
لیکن عشق تیری روح سے ہے اس لیے خدا سے مانگتے ہیں

کوئی مل جائے تم جیسا یہ ممکن ہی نہیں
پر تم ڈھنڈ لو ہم جیسا اتنا آساں یہ بھی نہیں

اس دلِ تنگ میں کس کس کو جگہ دوں
غم رہے، دم رہے، فریاد رہے یاں تیری یاد رہے

کاش تو دیکھ سکتی مجھے رات کے اس پہر میں
کتنی بے دردی سے تیری یاد میری نیند چرا لیتی ہے

بار بار اس کو اپنے غم کی کہانی نہ سنا
وہ تو پتھر ہے اور پتھر کبھی پگلا نہیں کرتے

اس کے جانے سے کچھ بھی تو نہیں بدلا
بس پہلے جہاں دل ہوتا ہے اب وہاں درد ہوتا ہے

کسی کی یاد میں اتنا اُداس نہ ہوا کر
لوگ نصیب سے ملتے ہیں اُداسیوں سے نہیں

بڑی گستاخیاں کرنے لگا ہے میرا دل مجھ سے
یہ جب سے تیرا ہوا ہے میری سنتا ہی نہیں

وہ اجنبی تھی تو روز یاد کرتی تھی
اسے اپنا ہونے کا احساس کیا دیا یاد کرنا ہی چھوڑ دیا

ہم نے مانگا ہی نہیں صلہ اپنی وفاﺅں کا
کہ شاید انکار کی فرصت بھی نہ ہو اُن کے پاس

نہ کروں تجھے یاد تو اُلجھ جاتا ہوں اپنی سانسوں سے
سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی سانسوں سے ہے یاں تیری یادوں سے

چلو آﺅ کائنات بانٹھ لیتے ہیں
تم میری باقی سب تمہارا

اُس کے ہاتھ پر اپنا نام دیکھا تو بہت خوش ہوا
وہ معصوم سے لہجے میں بولی تیرے ہمنام اور بھی ہیں

بس یہی عادت اُس کی مجھے اچھی لگتی ہے
اُداس کر کے کہتی ہے ناراض تو نہیں

زندگی ہمیں اب تیری تمنا ہی کب ہے
میں تو اس آس پے جیتا ہوں کہ مرنا کب ہے

مرنے کے بعد بھی نہ گیا ان کا بانگ پن
بحرِ غسل تخت پے لٹھایا اکھڑ گئے

پتھر اُٹھا کے توڑ ڈالا حسنِ رقابت سے آیئنہ
کل اس پر بگڑ بیٹھی کہ مجھ سا دوسرا کیوں ہو

میرے آنسوں تیرے دل کو کہیں تکلیف نہ دیں
وقتِ رخصت بھی نہ دیکھا تجھے مڑ کر میں نے

ضروری تو نہیں جو خوشی دے اس سے محبت ہو
پیار تو اکثر دل توڑنے والوں سے بھی ہو جاتا ہے

بہت جدا ہے اوروں سے میرے درد کی کیفیت
زخم کا کوئی نشاں نہیں اور درد کی کوئی انتہا نہیں

اگر تو وجہ نہ پوچھو تو ایک بات کہوں
بن تیرے ہم سے بھی اب جیا نہیں جاتا

ایک پل بھی تیری یاد سے غافل نہیں ہوا
میں مذہبِ وفا کا تجد گزار ہوں

اتنی نفرت نہ کر کے محبت بن جائے
ہبص بڑھ جائے تو اکثر برسات ہوا کرتی ہے

یوں غلط بھی نہیں ہوتے چہروں کے تسلسل
لوگ ویسے ہوتے بھی نہیں جیسے نظر آتے ہیں

رکھ لو رابطہ جب تک ہم زندہ ہیں دوستو!
پھر نہ کہنا اتنی دور چلا گیا اور بتایا تک نہیں

تیری شراب میں اتنا نشہ کہاں ساقی
یہ میرے یار کے بھیگے بدن کا پانی ہے

بکھرے وجود ٹوٹے خواب سُلگتی تنہایاں
کتنے حسیں تحفے دے جاتی ہے یہ محبت

جینا آساں تو نہیں تجھ سے بچھڑ کر لیکن
اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو مٹاﺅں کیسے

ایک لمحہ ملا تھا کہنے کو بس
زندگی بھر کی بات کیا کرتا

ردی کے بھاﺅ بچنے نکلے ہوئے ہیں لوگ
یہ زندگی اک پڑھا ہوا اخبار ہی تو ہے

ٹھوکریں مار کے محفل سے اُٹھاتے ہیں ہمیں
اور ایک پاﺅں سے دامن بھی دبا رکھا ہے

کون ہوتا ہے تیرے غم سے پریشان فراز
وہ تو اپنی ہی کسی بات پے روئی ہو گی

رہے گا یاد یہ دورِ حیات بھی ہم کو
کہ زندگی میں ترسے ہیں زندگی کے لیے

رات محفل میں تیری ہم بھی کھڑے تھے ایسے
جیسے تصویر لگی ہو کوئی دیوار کے ساتھ

میں جس کے ہاتھ میں اک پھول دے کے آیا تھا
اب اُس کے ہاتھ کا پتھر میری تلاش میں ہے

زندگی آ تجھے قاتل کے حوالے کر دوں
مجھ سے اب خونِ تمناّ نہیں دیکھا جاتا

پتھر کو تو نے بخش دی گویائی اے خدا
بولا ہے آج مجھ سے صنم بڑی مدتوں کے بعد

ہنستا تھا میرے حال پہ جو شہر میں روز
اُس شخص کا حال اب میرے حال جیسا ہے

ہم تو وفا شعار رہے ہیں تمام عمر
تم نے جفا بھی کی تو صنم مدتوں کے بعد

اُٹھا تو جا بھی چکا تھا عجیب مہماں تھا
صدائیں دے کے مجھے نیند سے جگا بھی گیا

پوچھنا چاہتا ہوں میں اُن آنکھوں سے
کس کو آباد کیا ہے مجھے بے گھر کر کے

تو جو بدلی بدل گئے ہم بھی
عشق کرتے تھے بندگی تو نہیں

تو چلے ساتھ تو آہٹ بھی نہ آئے اپنی
درمیاں ہم بھی نہ ہوں یوں تجھے تنہا چاہیں

انہی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آﺅ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

عالمِ کرب ہے آباد ہمارے اندر
پر سکوں ہم نظر آتے ہیں بظاہر کتنے

کوئی ملتا ہے تو اپنا پتہ پوچھتا ہوں
میں تیری کھوج میں تجھ سے بھی پرے جا نکلا

ہے وہی شخص میری زندگی کے اندھیروں کا سبب
جس کی راہوں میں دیا بن کے چلا ہوں میں

واقف تو ہم بھی اپنی طبیعت سے تھے مگر
اندازاءجنوں تیری محفل میں ہو گیا

مجھ کو دشمن کے ارادوں پے بھی پیار آتا ہے
تیری اُلفت نے محبت میری عادت کر دی

میں ہوں اِس دور کا سقراط مجھے زہر نہ دو
میں تو احساس کی تلخی سے ہی مر جاﺅں گا

میں نہ کہتا تھا میرے گھر میں بہار آئے گی
شرط اتنی تھی کہ پہلے تجھے آنا ہو گا

ہمیشہ دوست ہی ڈستے ہیں دشمنوں کی طرح
کلیجہ چاہیے سانپوں کو پالنے کے لیے

تم تو اپنی ہو تمہیں دل سے نکالوں کیسے!
میں تو دشمن کو بھی بے گھر نہیں ہونے دیتا

گلہ کروں تو کروں کس طرح بتائے کوئی
وہ بے وفا ہی سہی انتخاب تو میرا تھی

کل میں نے اُن کو دیکھا تو دیکھا نہیں گیا
مجھ سے بچھڑ کے وہ بھی بہت غم سے چُور تھی

اک لمحے میں چلا دیتی ہے پروانے کو
شمع کیا خوب محبت کا صلہ دیتی ہے

تشنگی جم گئی پتھر کی طرح ہونٹوں پر
ڈوب کر بھی میں تیرے دریا سے پیاسا نکلا

میرے تخیل نے وہ رنگ بھرے ہیں اس میں
تجھ سے بڑھ کر تیری تصویر نہ ہو جائے کہیں

میں نے خود اپنی خطاﺅں کی سزا پائی ہے
مجھ کو شکوہ نہیں تقدیر بنانے والے

چہرہ اُداس آنکھ میں آنسو لبوں پہ آہ
سب رنگ پھیکے پڑ گئے دل ٹوٹنے کے بعد

تیرے احساس کی خوشبو کو کوئی پہچان نہ لے
میں نے گلدان میں کچھ پھول سجا رکھے ہیں

تیرے ہوتے ہوئے ہاتھ میں تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں

میرے چہرے پہ خراشیں تو نہیں تھی اتنی
کس نے ٹوٹا ہوا آئینہ دیکھایا مجھ کو

مدت کے بعد اذنِ تبسم ملا مجھے
وہ بھی اتنا تلخ کے آنسو نکل پڑے

صرف چہرے کی اداسی پہ بھر آئے آنسو
دل کا عالم تو ابھی آپ نے دیکھا ہی نہیں

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انھیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کا مزہ ہم سے پوچھیے

نہ جانے کتنے ارادوں میں بٹ گیا ہے وجود
تمہیں بھلا بھی دیا اور بے قرار بھی ہوں

نہ جانے کون سی آواز تھی تعاقب میں
پلٹ کے دیکھا تو پتھر کے ہو گئے تھے ہم

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

یہ بھی اک تماشا ہے کارسازِ الفت کا
دل کسی کا ہوتا ہے بس کسی کا ہوتا ہے

ضبطِ غم کے مجھے اداب سکھانے والے
دل جو ٹوٹے گا تو پلکوں پہ چراغاں ہو گا

کانچ کا جسم لیے شہر میں پھرنے والے
دستِ حالات کا پتھر نہیں دیکھا تو نے

اپنی حالت کا بھی احساس تک نہیں ہے مجھے
اوروں سے سنا ہے کہ پریشاں بہت ہوں میں

میں شوکتِ بہار کا منکر نہیں ہوں
دل کانپتا ہے پھول کا انجام دیکھ کر

کبھی نہ ختم کیا میں نے روشنی کا سفر
اگر چراغ بجھا دل چلا لیا میں نے

جڑتے ہوئے دیکھا نہیں کبھی ٹوٹے ہوئے دل کو
گر جاتے ہیں جو اشک اُٹھائے نہیں جاتے

میں نے کہا بہت پیار آتا ہے تم پر
وہ مسکرا کے بولی اور تمہیں آتا ہی کیا ہے

وہ شخص کون تھا جو حقارت کی نظر سے
دریا کو دیکھتا ہوا پیاسا گزر گیا

ہم با وفا تھے اس لیے نظروں سے گر گئے
شاید اسے تلاش کسی بے وفا کی تھی

چراغ میں بھی تھا اور روشنی بھی رکھتا تھا
بجھا گئی ہے تیرے شہر کی ہوا مجھ کو

آنکھیں کھولی رہیں گی میری مرنے کے بعد تک
عادت جو ہو گئی ہے تیرے انتظار کی

مانا کہ تیرا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں
ملنے کے بعد مجھ سے ذرا آئینہ تو دیکھ

ضرورت توڑ دیتی ہے غرور و بے نیازی کو
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا

یاد آتی ہو تو ہو جاتی ہیں نم آنکھیں
کیا تصور میں بھی ستانے کی قسم کھائی ہے

اکیلے رہنے کی عادت تو ہمیں پہلے بھی تھی فراز
کیوں تنہا سے ہو گئے ہیں تیرے بدل جانے کے بعد

نازک مزاج ہے وہ اتنی کچھ نہ پوچھو وصی
سنا ہے اُسے نیند نہیں آتی اپنی دھڑکنوں کے شور سے

اُس کہہ دو اپنی خاص حفاظت کیا کرے
بے شک سانسیں اُس کی ہیں مگر جاں تو وہ ہماری ہے

ٹوٹ جاتے ہیں بکھر جاتے ہیں کانچ کے گھر میں مقدر اپنے
اجنبی تو سدا پیار سے ملتے ہیں بھول جاتے ہیں تو اکثر اپنے

ہم یہ نہیں کہتے کہ تیرے لیے کوئی دعا نہ مانگے
ڈر تو یہ ہے کہ کوئی دعا میں تجھے مانگ نہ لے

خدا کا شکر ہے کہ آنسو بے رنگ ہوتے ہیں
ورنہ راتوں کو بھیگے تکیے بہت راز کھول دیا کرتے

ملا کے خاک میں مجھ کو وہ اس انداز سے بولے
کھلونا تھا یہ مٹی کا کہاں رکھنے کے قابل تھا

اُسے شک ہے کہ میں اُس کے لیے جان نہ دے پاﺅں گا
مجھے یہ ڈر ہے کہ وہ روئے گی بہت مجھے آزمانے کے بعد

تقدیر کے لکھے پہ کبھی شکوہ نہ کیا کر
پھول بھی تو خوش رہتے ہیں کانٹوں کی بھیڑ میں

ہم وہ انا پرست ہیں جو ہار کر بھی کہتے ہیں
وہ منزل ہی بدنصیب تھی جو ہم کو نہ پا سکی

کیا یہی ہے کمال عشق و محبت کرنے کا
عمر جینے کی ہے اور شوق ہے مرنے کا

الزامِ محبت کے ڈر سے ہم نے چھوڑ دیا گھر اپنا
ورنہ یہ چھوٹی سی عمر پردیس کے قابل تو نہ تھی

اُس کی سوچ نے اُسے محدود رکھا ہے
ورنہ ہم اسکی سوچ سے بھی زیادہ اُسے چاہتے ہیں

اپنی فرصتوں میں کھو کر کہیں بھول نہ جانا مجھے
کہ ہم مٹی کے حوالے ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو

بنا کر چھوڑ دیتے ہیں اپنے وجود کا عادی
کچھ لوگ اس طرح بھی محبت کی سزا دیتے ہیں

خواہشوں کا قافلہ بھی عجیب ہے غالب
اکثر وہاں سے گزرتا ہے جہاں رستہ نہیں ہوتا
 

0 comments: