Saturday 17 January 2015

urdu poetry 1201 to 1300

سزا میں کوئی رد و بدل کر اے عشق
میری عمر دیکھ میرا مرنا ابھی بنتا نہیں


شہر سارا تھا جنازے میں شریک اُس کے
وہ شخص جو مر گیا تنہائی کے خوف سے


رات گلی میں ملا مجھے کسی بدنصیب کا خط
کہیں خوں سے لکھا ہوا کہیں آنسوں سے مٹا ہوا


افسوس تو یہ ہے کہ توں کمسن بھی نہیں
پھر کیوں تیرے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہوں


جنہیں فرصت نہیں ملتی ذرا بھی یاد کرنے کی
اُنہیں کہہ دو ہم اُن کی یاد میں فرصت سے بیٹھے ہیں


ٹکڑے پڑے تھے راہ میں تصویر کے بہت
لگتا ہے کوئی دیوانہ سمجھدار ہو گیا


عطاءیار بھی کوئی ٹکراتا ہے بھلا
تیری طرح تیرا غم بھی سر آنکھوں پر


تم دل کو لیے بیٹھے ہو
عشق تو نسلیں اُجاڑ دیتا ہے


اِدھر سے سمیٹیں تو اُدھر سے بکھر جاتے ہیں
اُس نے دُکھ دیتے ہوئے دامن نہیں دیکھا میرا


میں مر جاﺅں تو میرا دل نکال کر اُس کو دے آنا
میں نہیں چاہتا میرے مرنے کے بعد وہ کھیلنا چھوڑ دے


بربادیوں کا جائزہ لینے کے واسطے
وہ پوچھتے ہیں حال بھی میرا کبھی کبھی


عشق جاگا ہے آج سینے میں
ہو گا برباد اب سکوں دل کا


اندیشہ بھی بہت تھا اور احتیاط بھی بہت کی
ہوتے ہوتے وہ شخص جدا ہو ہی گیا


تیری حسرت بھی آ بسی آخر
خواہشوں کے یتیم خانے میں


یہ کیسا خواب تھا جھٹکا سا لگ گیا دل کو
کہ اک بے وفا پریشاں میری تلاش میں تھی


دل تجھے بھولنا بھی چاہے تو مشکل یہ ہے
کس طرح سانس کی زنجیر کو توڑا جائے


ہزاروں مشغلے ہیں جو دل کو مصروف رکھتے ہیں
مگر وہ شخص ایسا ہے کہ پھر بھی یاد آتا ہے


اک عرضے سے میسر ہی نہیں ہے
وہ لفظ کہ جس کو قرار کہتے ہیں لوگ


میں تو اِس لیے چُپ ہوں کہ کوئی تماشہ نہ بن جائے
اور تم سمجھتی ہو مجھے تم کوئی گِلہ نہیں


یہ جو سلسلہ چل نکلا ہے جہاں میں رشوتوں کا
تم بھی کچھ لے دے کے ہمارے کیوں نہیں ہو جاتے


حسرت یہ ہے کہ میں تھام لوں ہاتھ اُس کا زور سے
مگر کمبخت اُس کی چوڑیوں پہ ترس آتا ہے


نہ کیا کر اپنے دردِ دل کو شعاری میں بیاں
لوگ اور ٹوٹ جاتے ہیں ہر لفظ کو اپنی داستاں سمجھ کر


اُس کی جستجو کا انتظار اور اکیلا پن
تھک ہار کے مسکرا دیتا ہوں جب رویا نہیں جاتا


صدا سلامت رہے وہ دنیا جس میں تم بستے ہو
ہم تیری خاطر ساری دنیا کو دعا دیتے ہیں


لوگ جانے گے تجھے میرے حوالے دے کر
میرا ہونا تیرے ہونے کی نشانی ہو گا


بے وفا وقت تھا تم تھی یاں مقدر میرا
بات اتنی ہے کہ انجام جدائی نکلا


مجھے یقیں ہے کہ توں میری کبھی نہیں ہو گی
نہ جانے اپنے یقیں پہ یقیں کیوں نہیں آتا


تجھے چھوڑں تو مر نہ جاﺅں
اُس کی یہی بات بھلائی نہیں جاتی


گزر تو جائے گی زندگی اُس کے بغیر بھی لیکن
ترستا رہے گا دل پیار کرنے والوں کو دیکھ کر


کچھ اُس کو بھی عزیز ہیں اپنے سبھی اصول
کچھ ہم بھی اتفاق سے ضد کے مریض ہیں


جب وقت آیا تو وہ بک چکی تھی
ہمیں امیر ہونے میں زمانے گزر گئے


کبھی پوچھ کر دیکھو مجھے سے اپنی یادوں کا عالم
ساری ساری رات ستاروں سے تیرا ذکر کیا کرتے ہیں


اے شمع ہم سے ضبطِ محبت کا ہنر سیکھ
کمبخت تو اک رات میں ساری ہی جل گئی


چلو مانا کہ تمہاری عادت ہے تڑپانا
ذرا سوچو! کہ ہم مر گئے تو تم کیا کرو گی؟


کبھی نہ کبھی تو وہ میرے بارے میں سوچے گی
کہ حاصل ہونے کی اُمید نہ تھی پھر بھی وفا کرتا رہا


بڑا میٹھا سا زہر تھا اُس کی یادوں میں
ساری عمر گزر گئی مجھے مرتے مرتے


قتل نہ کروں مجھ کو مجھ سے محبت کر لو بےشک
کسی قاضی سے پوچھ لو یہ سزا کم تو نہیں


کبھی یادیں، کبھی باتیں، کبھی پچھلی ملاقاتیں
بہت کچھ یاد آتا ہے تیرے اک یاد آنے سے


ہائے وہ بچپن بھی کتنا حسین تھا جب سرعام رویا کرتے تھے
اب اک آنسو بھی گر جائے تو لوگ ہزاروں سوال کرتے ہیں


سنا تھا دل سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے
پھر اور کیوں نہیں سمایا اِس میں تیرے سوا


اُس نے مجھے پرندہ سمجھ کر بارش میں اُڑا دیا
اُسے یہ بھی نہیں پتہ کہ بارش میں اُڑنے والے پرندے کبھی لوٹا نہیںکرتے


اتنی خاموش محبت کیوں کرتی ہو مجھ سے
لوگ کہتے ہیں اس بدنصیب کا کوئی نہیں


صاف کہہ دو اگر مجھ سے کوئی گلہ ہے
فیصلہ فاصلے سے بہتر ہے


صاحب یوں نہ جھانکو غریب کے دل میں
یہاں ہزاروں حسرتیں بے لباس رہتی ہے


بھرم رکھا ہم نے چاند کا ورنہ یہ ارادہ تھا
ترا بازو پکڑ لیتے اور اُس کے روبرو کرتے


ہم بھلا نہ سکے اک پور خلوص آنکھوں کی خوبصورتی کو
لوگ جگر والے ہیں ہر روز نیا محبوب بنا لیتے ہیں


ہاں محبت کے حوالے سے بہت ظالم ہو تم
توڑ دیتی ہو روز مجھے اپنے وعدوں کی طرح


میری یادوں سے بچھ نکلو تو میرا وعدہ ہے تم سے
میں خود دنیا سے کہہ دوں گا کمی میری وفا میں تھی


لُٹ گئی یوں سرِ بازار وفا کی پونجی
بک گئے ہم کسی مجبور کے زیور کی طرح


محبتوں میں دکھ کے سوا رکھا ہی کیا ہے
کوئی مل بھی جائے تو جدائی کے اندیشے مار دیتے ہیں


بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد محبت نے انتہا کر دی


ارے قربان جاﺅ اُس کی سادگی پر
جو کہہ گئی دل ہی تو توڑا ہے کون سا جاں لے لی


پہلے تو بہت شوق تھا تمہیں ہمارا حال چال پوچھنے کا
مجھے بتا ہم وہ نہیں رہے یاں دن وہ نہیں رہے


اے زندگی جا ڈھنڈ کے لا میرے یاروں کو
وہ اگر نہ ملیں تو سن جا تجھے بھی خدا حافظ


اتنی لمبی عمر بھی نہ مانگ میرے لیے
کہیں ایسے نہ ہو کہ تم بھی چھوڑ دو اور موت بھی نہ آئے


اتنا کچھ ہو رہا ہے دنیا میں
کیا تم میری نہیں ہو سکتی


درجہ بندی دیکھی جائے تو میرے یار اول ہیں
روٹھ جانے میں دل جلانے میں اور بھول جانے میں


کفن میں لپٹے میرے چہرے کو اُس نے یوں تڑپا کے رکھ دیا
نئے کپڑے کیا پہن لیے کسی کو دیکھتے ہی نہیں


ہم نے پوچھا آج میٹھے میں کیا ہے؟
اُس نے انکلی اُٹھائی اور اپنے ہی ہونٹوں پہ رکھ دی


اُسے کہنا کہ یوں نقاب کر کے میرے سامنے سے نہ گزرا کرے
نگاہِ عشق تو پتھر بھی چیر دیتی ہے


تم کسی اور سے معلوم تو کر کے دیکھو
ہم کسی اور کے کتنے ہیں تمہارے کتنے


مبتلاِ عشق دیکھ کر وہ صاحبِ عقل بولے
لگتے معصوم ہو پر برباد ہو گئے ہو


اے محبت شرم سے ڈوب مر
صرف ایک بے وفا کو میرا نہ کر سکی


ہم نے سوچ رکھا ہے تیرے لوٹ آنے پر
طنز کرنے والوں کو خوب جلائیں گے


ہوتا جو اگر یہ ممکن تو میں تمہیں سانس بنا کر دل میں رکھتا
تو رُک جائے تو میں نہیں میں رُک جاﺅں تو تو نہیں


چھوڑ تو سکتے ہیں مگر چھوڑ نہیں پاتے
وہ شخص میری بگڑی ہوئی عادت کی طرح ہے


سوزِ دوزخ بھی، لطفِ جنت بھی
ہائے کیا چیز ہے یہ محبت بھی


وہ اک رات جلی تو اُسے شمع کہہ دیا
ہم برسوں سے جل رہے ہیں کوئی تو خطاب دو


ہمیں صورت سے کیا مطلب سیرت پہ مرتے ہیں
اُسے کہنا تمہارا حُسن ڈھل جائے تو لوٹ آنا


سب کو سیرابِ وفا اور خود کو پیاسا رکھا
مجھ کو لے ڈوبے گا دل تیرا دریا ہونا


مجھ کو کھو دو گی تو پچھتاﺅ گی بہت
یہ آخری غلطی ذرا سوچ کر کرنا


لے لو واپس وہ آنسو وہ تڑپ اور وہ ادائیں ساری
نہیں کوئی جرم میرا تو پھر یہ سزائیں کیسی


آئینے میں وہ دیکھ رہی تھی بہارِ حُسن
آیا میرا خیال تو شرما کے رہ گئی


جب کسی اور کے ہو جائیں گے نہ ہم
ہاں پھر تیرا غرور ٹوٹے گا


دیکھی جو تیری بے روخی تو آنسو نکل پڑے
دنیا تو بے وفا تھی لیکن تجھے کیا ہوا


بیٹھے تھے اپنی مستی میں کہ اچانک تڑپ پڑے
آ کر تیرے خیال نے اچھا نہیں کیا


قسموں کو توڑنے کی تو نیت نہ تھی مگر
زلفوں کو رُخ پہ دیکھ کر نیت بدل گئی


تم آﺅ تو تمہاری نظر اُتاریں ہم
دل کو پھینک دیں تیرے سر سے وار کر


قسمت ساتھ نہ دے تو محبت نفرت میں بدل جاتی ہے
اکثر کانٹا لگنے پر لوگ پھول کو پھینک دیا کرتے ہیں


اُس کے لیے اہم اور وہ بھی ہم اُف اُف اُف
اے دلِ ناداں بس کر پاگل ہے کیا


جن کے ملنے کے منتظر تھے اک عرضے سے
کمال کا شخص تھا آیا بھی تو الوداع کہنے


ہاتھ کی نبض بھی کاٹ بیٹھے ہیں
شاید کہ وہ دل سے نکل جائے خوں کے ذریعے


شبِ وصال ہے گل کر دو اِن چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والو ©ں کا


اے عشق تیری تقدیر ہوتی اگر میرے ہاتھوں میں
قسم خدا کی بہت رُلاتا تجھے بھی


جو ہرگز ہرگز نہ چھوڑی جائے
ایسی عادت بن گئی ہو تم


ہم میں تو خیر ہمت ہے درد سہنے کی
تم اتنے دُکھ دیتی ہو تھک تو نہیں جاتی


بچھڑنا ہے تو یوں کرو روح سے نکل جاﺅ
رہی بات دل کی تو اُسے ہم دیکھ لیں گے


وہ ساتھ تھی تو مانو جنت تھی زندگی
اب تو ہر سانس جینے کی وجہ پوچھتی ہے


آج اُس نے میری محبت میں کسی اور کو شریک کیا تو احساس ہوا یاربّ
کہ تو شرک کرنے والوں کو معاف کیوں نہیں کرتا


سنو یہ جو عشق ہے نہ جان لے لیتا ہے
مگر موت پھر بھی نہیں آتی


نہ جانے کیوں مگر اِس جھوٹی دنیا کے جھوٹے لوگ
وفائیں کر نہیں سکتے باتیں ہزار کرتے ہیں


کیا ملا ہمیں ساری عمر برباد کر کے
بس اک شعری کا ہنر اور اک راتوں کو جاگنا


تلاش کر نہ سکا پھر مجھے وہاں جا کر
غلط سمجھ کر جہاں اُس نے کھو دیا تھا مجھے


ہر بات تیری مانو یہ ناممکن ہے
ضد چھوڑ دے اے دل تو اب بچہ نہیں رہا


پروانے کو شمع پہ جل کے کچھ تو ملتا ہو گا
صرف مرنے کی خاطر تو کوئی محبت نہیں کرتا


وہ تیری نہیں وہ کسی اور کی ہے اے دل چُپ کر کے سو جا
رات رونے کے لیے نہیں سونے کے لیے ہوتی ہے


شدتِ عشق کو کیا روئیں کے ہم نے دل میں
دردِ دنیا بھی ضرورت سے زیادہ رکھا


مجھے جب تم سے ملنے کی طلب ہوتی ہے شدت سے
تیری تصویر سے لڑ کر میں رو کر بیٹھ جاتا ہوں


آپ کے بغیر یہ دھڑکنا ہی نہیں چاہتا
یقیں مانیے بہت پاگل سا ہے میرا دل


اُس کے لب اور پھر وفا کی قسم
ہائے کیا قسم تھی خدا کی قسم

0 comments: