Friday 5 December 2014

urdu poetry 1 to 100

اس کی باہوں میں سونے کا اب تک شوق ہے مجھ کو
محبت میں اُجڑ کر بھی میری عادت نہیں بدلی

کیسے بھلا دیتے ہیں لوگ تیری خدائی کو یا ربّ
ہمیں تو ہو گیا دشوار ایک انساں کو بھلانا

وہ سچ ہی کہتی تھی کہ تیری مسکراہٹ سے پیار ہے
کیوں کہ جاتے جاتے میری مسکراہٹ بھی ساتھ لے گئی

تیری دُوری نے بنا دیا ہے شاعر مجھ کو
جہاں تنہائی ملی تجھے حالِ دل لکھ ڈالا

تم نے ہی کہا تھا کہ آنکھ بھر کر دیکھ لیا کرو مجھ کو
اب آنکھ تو بھر آتی ہے پر تم نظر نہیں آتی

میں جس کی خاطر محبت کی ہر حد سے گزر گیا
وہ آج بھی مجھ سے پوچھتی ہے کہ سچ بتاﺅ کہ وفا کرو گے؟

چلو رکھتے ہیں وفا آج عنوانِ گفتگو
پھر دیکھتے ہیں محفل میں رہتا ہے کون کون

ملنے کی غرض ہو تو چلے آتے ہیں اپنوں کی طرح
دل بھر جائے تو جواب دینا بھی گوارہ نہیں کرتے

ہمارے چاہنے والے ہمیں بھول گئے تو کیا
جب موسم بدلتا ہے تو پتے جھڑ ہی جاتے ہیں

زندگی میں لوگ دکھ کے سوا دے بھی کیا سکتے ہیں فراز
مرنے کے بعد دو گز کفن دیتے ہیں وہ بھی رو رو کے

اس دنیا میں کون ساری زندگی ساتھ دے گا کسی کا ساقی
لوگ تو اپنے ہاتھوں سے دفنا کر بھول جاتے ہیں کہ قبر کون سی ہے

کانٹوں پے گزار دیتے ہیں اپنی ساری عمر
کون کہتا ہے کہ پھولوں کو کوئی غم نہیں ہوتا

جب بھی جی میں آئے میرے پاس چلی آتی ہو
اے شبِ تنہائی کیا تیرا بھی میرے سوا کوئی نہیں

سوچتے ہیں سیکھ لیں ہم بھی بے رکھی کرنا
محبت دیتے دیتے ہم نے اپنی قدر کھو دی

تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک وہ جو ہاتھ تک کا تھا فاصلہ
اُسے ناپتے اُسے کاٹتے میری ساری عمر گزر گئی

تم کیا جانوں ہم اپنے آپ میں کتنے اکیلے ہیں
پوچھ اُن دیواروں سے جو کہتی ہیں خدا کسی کو اتنا تنہا نہ کرے

ہمارے انتخاب کا معیار کچھ بھی ہو
جسے ہم چاہیں گے اُسے بے مثال کر دیں گے

نکلے تھے اسی آس میں کسی کو بنا لیں گے اپنا
اک خواہش نے عمر بھر کا مسافر بنا دیا

اے چشمِ یار نہ یاد نہ نفرت نہ احساس
کیا ہم کسی سلوک کے قابل نہیں رہے

مجھے بکھرنے نہ دو میرے مقدر کی طرح
یہ تیری زلف نہیں جو پل بھر میں سنور جائے گی

توں وہ ظالم ہے جو دل میں رہ کر بھی میری نہ بن سکی
اور دل وہ کافر ہے جو مجھ میں رہ کر بھی تیرا ہو گیا

جدائی کی اذیت کو اگر تم جاننا چاہو تو کچھ لمحے تم سانس اپنی روک کر دیکھو
تمہیں محسوس ہو گا کہ جدائی موت جیسی ہے

میں نہیں اتنا غافل کہ اپنے چاہنے والوں کو بھول جاﺅں
پیتا ضرور ہوں لیکن تھوڑی دیر یادوں کو بھلانے کے لیے

دیکھنا تم میری موت کا سن کر بھی نہ آﺅ گی
تم سمجھ بیٹھو گی یہ کوئی بہانہ ہے پھر سے ملنے کا

تمہاری بے روخی اک دن ہماری جان لے لے گی
قسم تم کو ذرا سوچھو تمہیں دل نے پکارا ہے

بڑھا کے اُس سے راﺅ رسم اب یہ سوچھتے ہیں
وہی بہت تھا جو رشتہ دعا و سلام کا تھا

کتنا عجیب ہوتا ہے ادابِ رخصتیءمحفل
اُٹھ کر وہ بھی چلا جاتا ہے جس کا کوئی گھر نہیں ہوتا

کبھی ہماری بھی زندگی خوشیوں سے لبریز تھی
اک شخص نے ساتھ کیا چھوڑا کہ جینے کی تمنّا ہی مٹ گئی

جن شاموں میں تجھے بھولنا چاہوں وہی شامیں اُداس ہوتی ہیں
اپنی یادوں کے سلسلے روکھو میری نیندیں خراب ہوتی ہیں

اُس شخص کو تو بچھڑنے کا بھی طریقہ نہیں آتا
جاتے ہوئے خود کو میرے دل میں ہی چھوڑ گیا

دھڑکن کی ڈُھگ ڈُھگی پے کب سے ہے محوے رقص
دل تھک کہ ہی گر جائے تماشہ تو ختم ہو

میں نے اُس سے کہا کہ جوڑ دو یاں توڑ دو مجھے
اُس نے ہنس کر گلے سے لگایا اورکہاچھوڑرہی ہوں تمہیں، ٹوٹ تم خود ہی جاﺅ گے

زندگی تو ختم ہو جائے گی یہ سب کو معلوم ہے فراز
جتنی بندے کی زندگی ہے وہاں تک تو وفا کرے

وہ بے وفا نہیں ہے اُسے بے وفا نہ کہہ
کچھ حسرتیں کچھ مجبوریاں کچھ حق وہ بھی رکھتی ہے

یہ میری زیست کی سب سے بڑی تمنّا تھی
وہ میرے پاس میرے نام کی طرح رہتی

کیسی تنہائیاں سونپی ہے اک شخص نے مجھے
کہ اب کسی اور کو تنہا دیکھوں تو آنسو نکل آتے ہیں

ہزار چہروں میں اُس کی محبتیں ملی مجھ کو
پر دل کی ضد تھی کہ اگر وہ نہیں تو اُس جیسی بھی نہیں

بڑی گستاخ ہے تیری یاد اِسے تمیز سکھا
دستک بھی نہیں دیتی اور دل میں اُتر جاتی ہے

یہ سوچ کر اُس نے مجھے چھوڑ دیا
غریب سا شخص ہے محبت کے سوا کیا دے گا

مجھ سے کہتی ہے قبر تک تیرے ساتھ رہوں گی
بہت پیار کرتی ہے مجھ سے میری تنہائی

فقط خوابوں سے ہی نہیں ملتا سکون سونے کا
کسی کی یاد میں رات بھر جاگنے کا بھی اپنا مزاہ ہے

میں تو خود اپنے لیے بھی اجنبی سا بن گیا ہوں
توں بتا مجھ سے جدا ہو کے تجھے کیسا لگا؟

اُسے کہنا کہ یہ شام کی اُداسیاں ہمیں اچھی نہیں لگتی
اگر ہو سکے تو یہ جدائی تھوڑی مختصر کر دے

توڑ دیے ہیں میں نے گھر کے سبھی آئینے
پیار میں ہارے ہوئے لوگ مجھ سے دیکھے نہیں جاتے

تمہیں بھولنے میں ہمیں کچھ وقت لگے گا
اور وہی کچھ وقت ہماری زندگی ہے

یہ ٹھیک ہے مرتا نہیں کوئی جدائی سے
خدا کسی کو کسی سے مگر جدا نہ کرے

ہوتی ہے لاکھ غموں کی دعا نیند بھی لیکن
کچھ غم ایسے بھی ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے

وہ کیسے لوگ تھے یاربّ جینوں نے پا لیا تجھ کو
ہمیں تو ہو گیا دشوار ایک انساں کا پانا

ڈھنڈ رہی ہے وہ مجھے بھول جانے کا طریقہ
سوچتا ہوں خفا ہو کر اُس کی مشکل آساں کر دوں

محبت کی آزمائش دیکھ دیکھ کر تھک گئے ہیں اے خدا
قسمت میں کوئی ایسا بھی لکھ دے جو موت تک وفا کرے

لوگ منتظر ہی رہے کہ ہمیں ٹوٹتا ہوا دیکھیں
اور ہم تھے کہ برداشت کرتے کرتے پتھر کے ہو گئے

دل تو کرتا ہے کہ روح کی جگہ تم ہوتی میرے جسم میں
جب تم جدا ہوتی تو میں مر تو جاتا

بدل جاﺅ بھلا تم بھی مگر یہ زہن میں رکھنا
کہیں پچھتاوا نہ بن جائے ہم سے بے روخی اتنی

اس تنہائی کے درد کو کوئی بھی نہیں جان سکتا
اِس کا تو اُسے بھی نہیں پتہ جو مجھے تنہا کر گئی

قطرائے شبنم کی طرح اُڑ جائے گیں گل سے
اک یاد سی رہ جائے گی گلشن میں ہماری

میں تم سے کچھ نہیں کہتا فقط اتنی گزارش ہے
کہ اُتنی بار مل جاﺅ کہ جتنا یاد آتی ہو

جس کو بھی دیکھا اُسے روتا ہوا پایا
یہ محبت تو مجھے کسی فقیر کی بددعا لگتی ہے

نہ رکھ میرے دوستوں کو مصروف اتنا اے خدا
کہ میری جان نکل جائے اور انہیں خبر تک نہ ہو

نہ جانے اتنی محبت کہاں سے آ گئی ہے اُس کے لیے
کہ میرا دل بھی اُس کی خاطر مجھ سے روٹھ جاتا ہے

مرنا تو اِس جہان میں کوئی حادثہ نہیں فراز
اِس دورِ نہ گوار میں جینا کمال ہے

مسکرانے کی عادت کتنی مہنگی پڑ گئی ہم کو
چھوڑ دیا سب نے یہ سمجھ کر کہ ہم بہت خوشی ہیں

اُس کی محبت میں شراکت نہیں قبول مجھے
وہ اگر میری ہے تو خواب بھی میرے دیکھے

میں پیار کا مفتی ہوں اور میرا یہ فتویٰ ہے
جو شخص چھوڑ دے راہوں میں، وہ کافر سے بھی بدتر ہے

نشہ محبت کا ہو یاں شراب کا، ہوش دونوں میں کھو جاتے ہیں
فرق صرف اتنا ہے کہ شراب سولا دیتی ہے اور محبت رولا دیتی ہے

پھر سے نکلے ہیں تلاشِ زندگی میں
دعا کرنا کہ اس بار کوئی بے وفا نہ ملے

توں ہوش میں تھی پھر بھی ہمیں پہچان نہ پائی
ایک ہم ہیں کہ شراب کے نشے میں بھی تیرا نام لیتے رہے

مجھے کس طرف جانا ہے کچھ خبر نہیں
میرے رستے بھی کھو گئے میری محبت کی طرح

بزدل ہے وہ لوگ جو پیار نہیں کرتے
بہت حوصلہ چاہیے برباد ہونے کے لیے

پیار نبھانے کا دعوا اتنا نہ کرو ظالم
کسی نے مجھے بھی چھوڑا تھا قسمیں اٹھانے کے بعد

چاند کو اپنی جوکھٹ پہ سجانے کی تمنّا نہ کر
یہ زمانہ تو آنکھوں کے خواب بھی چھین لیتا ہے

کیسے بھلا دیتے ہیں لوگ تیری اس خدائی کو یاربّ
مجھ سے تو تیرا بنایا ہوا ایک شخص بھلایا نہیں جاتا

اتنا کہاں مصروف ہو گئی ہو تم
کہ دل دُکھانے بھی اب نہیں آتی

کبھی لے مجھ سے میرے شبِ و روز کا حساب
پھر ڈھنڈ اپنے سوا اور کچھ میری زندگی میں

اس کی مسکان میں بھی چھپا کوئی غم تھا محسن
ورنہ ہلکی سی مسکراہٹ پہ تو آنسو نہیں آتے

اگر تیرے بنا جینا ممکن ہوتا میری جان
تو قسم ہے محبت کی تجھے یاد کرنا بھی گناہ سمجھتا

ساری عمر پوجتے رہے لوگ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے پتھر کے خدا کو
ہم نے خدا کے ہاتھ سے بنائے ہوئے انساں کو چاہا تو گنگار ہو گئے

محبت کیا چیز ہے یہ اب جانا ہم نے وصی
ہزاروں کے دل توڑنے پڑتے ہیں صرف اک دل کی خاطر

کچھ ایسی محبت اُس کے دل میں بھر دے یاربّ
کہ وہ جس کو بھی چاہے وہ میں بن جاﺅں

ہو سکے تو لوٹ آﺅ میں بہت اکیلا ہوں دوست
اِن بے رونق راتوں کی اُداسی کہیں میری جان ہی نہ لے لے

اُس نے اک بار کہا تھا پیار صرف مجھ سے کرنا
پھر آج تک ہم نے محبت کی نگاہ سے خود کو بھی نہیں دیکھا

اتنی وفائیں بھی نہ کرنا کبھی کسی سے دوست
دل کی گہرائی میں اُترنے والے اکثر ڈوب جایا کرتے ہیں

اے ساقی ہمارا احسان ہے کہ تیرے پاس چلے آتے ہیں
ورنہ ہمارے یار کی آنکھیں کسی میخانے سے کم نہیں

قدم رُک سے گئے ہیں آج پھول کا انجام دیکھ کر
وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی محبت پھول جیسی ہے

خوش رہنا سیکھ تو لیا تھا اُس کے بغیر بھی
مدت بعد پھر اُس نے حال پوچھ کر بے حال کر دیا

تجھے محتاط کرتا ہوں تیری میں جان لے لوں گا
اگر اِن جھیل آنکھوں کو کبھی پُرنم کیا تو نے

اگر وہ جان جاتی دل کے معاملے
تو اُسے ہم سے جدائی کا خیال بھی رولا دیتا

اُس نے جان کہہ کر پکارا تو میری روح تک لرز گئی
میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ مخاطب کسی اور سے تھی

قدم چوکٹ پہ رکھتے ہی یہ بازو پھیل جاتے ہیں
محبت سے نکل آئے ہیں عادت سے نہیں نکلے

کیوں پیتے ہیں شراب لوگ کسی کے غم میں
جھوٹے یار کی خاطر سچے خدا کو ناراض کر کے

تبدیلی جب بھی آتی ہے موسم کی عداﺅں میں
کسی شخص کا یوں بدل جانا بہت یاد آتا ہے

توں ہوش میں تھی پھر بھی ہمیں پہچان نہ پائی
اور ایک ہم ہیں کہ نشے میں بھی تیرا نام لیتے رہے

دیکھ کے دنیا کو ہم بھی بدلیں گے مزاجِ زندگی
رابطہ سب سے ہوگا لیکن واسطہ کسی سے نہیں

ڈبو دے اپنی کشتی کو کنارہ ڈھنڈنے والے
یہ دریائے محبت ہے یہاں ساحل نہیں ملتا

آنا ہو تو چلے آنا آسان پتہ ہے میرا
دیوار گِری ہو گی اک بجتا سا دیا ہو گا

بھرسوں باد بھی میں اُس کی عادت نہ بدل سکا
کاش میں اُس کا پیار نہیں اُس کی عادت ہوتا

رہے گا یاد یہ دورے حیات بھی ہم کو
کہ زندگی میں ترسے ہیں زندگی کے لیے

ہماری اور اُس کی کہانی اتنی ملتی جلتی ہے
ہم اُس کے بغیر نہیں رہ سکتے اور وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتی

تلاش کر رہی ہے وہ ہم سے جدا ہونے کا طریقہ
سوچتا ہوں دنیا چھوڑ کر اُس کی مشکل آساں کر دوں

یہ تم سے کہہ دیا کس نے کہ بازی ہار بیٹھے ہم
محبت میں لوٹانے کو ابھی تو جان باقی ہے

وہ اپنی ضد کی ایک عادت کو بھی نہ بدل سکی
نہ جانے کیوں اُس کی خاطر ہم نے اپنی زندگی بدل ڈالی