Saturday 17 January 2015

urdu poetry 1501 to 1600

تمہیں قسمت سمجھ کر سینے سے لگایا تھا
بھول گیا قسمت بدلتے دیر نہیں لگتی

لب چھومیں زلفیں سنواری بانہوں میں بھر لیا ہم نے
پوچھو مت رات خیالوں میں آپ کے ساتھ کیا کیا کِیا ہم نے

سچ تو کہہ دوں پر اِس دور کے انساں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بُری لگتی ہے

تم نے اچھا کیا دوکھا دیا
کچھ نہ دیتی تو گلہ رہتا

بند مُٹھی میں وہ ریت کی مانند
زندگی سے گئی ذرا ذرا کر کے

نہ بنا اتنا دیوانہ اپنی یادوں کا
کل کو ہم ہی نہ رہے تو تجھے اتنا یاد کون کرے گا

وہ مجھے کہتی ہے کہ تم بہت بدل گئے ہو
اُسے کیا پتہ کہ ٹوٹے ہوئے پتوں کا رنگ بدل ہی جاتا ہے

تیری دل فریب ادائیں میری جان لے لے گی
یہ اندازِ نظر بدلو میری زندگی کا سوال ہے

شکایت لے کر گیا تھا اُس کے دیے ہوئے درد کی
بھول گیا میں اپنا غم اُس کو اتنا خوش دیکھ کر

تم زمانے کے ہو ہمارے سوا
ہم کسی کے نہیں تمہارے سوا
تمہیں یقین دلائیں تو کس طرح آخر
ہمارا کوئی اپنا بھی تو نہیں تمہارے سوا

اب نہ جاگیں گے راتوں کو تیری یادوں کے سہارے
ہم نے عادت کو بدلنا ہے تیری نظروں کی طرح

مجھے نفرت تھی چلتے ہوئے پانی سے
تیری یاد نے میری آنکھوں کو سمندر بنا دیا

پھر سے ہر بوند میں تیری یاد کی لذت لے کر
بارشیں آگ لگانے کا ہنر لائی ہے

اُس غم زدا سے پوچھ وقتِ صحر کی قیمت
جلتا ہو جس کا خون چراغوں میں رات بھر

اُس نے عجب انتقام لیا
میرے نیندوں سے دوستی کر کے

پہلے رقیب کم تھے کہ اک ظلم یہ ہوا
قاصد رقیب بن گیا اُنہیں دیکھنے کے بعد

آنسوں اُٹھا لیتے ہیں میرے غموں کا بوجھ
یہ وہ دوست ہیں جو کبھی احسان جتایا نہیں کرتے

اک میں ہی نہیں جرمِ محبت کا خطاوار
ہلکا سا تبسم بھی شامل اُدھر سے تھا

ارے اوہ! مبین کتنے معصوم لگتے ہو
مگر کمال کے بے وفا نکلے ہو

دل سوچتا ہے تو سوچتا ہی رہ جاتا ہے
یہ جو اپنے ہوتے ہیں اپنے کیوں نہیں ہوتے

لوگوں نے روز کچھ نیا مانگا خدا سے
اک ہم ہی تیرے خیال سے آگے نہیں گئے

آنکھیں تخریب کار ہیں اتنی
دل کی دنیا اُجاڑ دیتی ہیں

اُسے کہنا کہ جب اُلجتی ہے تو اور اُلجھ جاتی ہے
یہ زندگی ہے تیری زلف نہیں جو سنور جائے گی

اب تو درد سہنے کی اتنی عادت سی ہو گئی ہے
کہ جب درد نہ ملے تو بہت درد ہوتا ہے

وہ جو آتی ہے لوٹ کے جاتی ہی نہیں
تم لپٹ جاﺅں ایسی مصیبت کی طرح

خود نہیں آتی ہو تو اپنی یادوں کو بھی نہ آنے دیا کرو
مجھ تم سے محبت ہے اپنی یادوں کو یاد سے بتا دینا

کلائی نہ پکڑا کرو بہت کہا ہے تمہیں
بات چوڑیوں کی نہیں جذبات مچل جاتے ہیں

آج کی بارش بھی تیری یادوں کی طرح ہے
ہلکی ہلکی ہے پر ہوئے جا رہی ہے

آنکھیں پُرتم دل حیران و پریشاں ہے اب تک
کہ اتنی ٹھنڈی ہوا میں میرا آشیانہ جلا کیسے

میں جب بھی ٹوٹتا ہوں تو تمہیں ڈھنڈتا ہوں
تو نے ایک بار کہا تھا کہ ہم ایک ہیں

اپنی آنکھوں کو نوچ ڈالا ہے
خواب آیا تھا پھر محبت کا

غمِ زندگی نے کچھ ایسی تلخیاں بھی دی
کہ خوشی کا وقت بھی آیا تو مسکرا نہ سکے

کچھ تو حساب کرو ہم سے
اتنی محبت اُدھار کون دیتا ہے

لوگ کہتے ہیں کہ دوست تو زندگی ہوتے ہیں
شاید وہ نہیں جانتے کہ دوکھا بھی زندگی دیتی ہے موت نہیں

اپنی مٹھی میں چھوپا کر کسی جگنو کی طرح
ہم تیرا نام چپکے سے پڑھا کرتے ہیں

ایک نہ ایک روز حاصل کر ہی لوں گا تمہیں
ٹھوکریں زہر تو نہیں جو میں کھا کر مر جاﺅں گا

فقط خدا ہی ہے جو ایک سجدے سے اپنا لیتا ہے
ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتے

گلی سے گزرتے ہوئے افراد سہم گئے
تنہائیوں کا شور تھا خالی مکان میں

مجھ کو تمہارے قُرب کی خواہش تو ہے مگر
الفت کا جو مزاح ہے وہ انہی فاصلوں میں ہے

ہم کیسے کریں سونے کی خواہش
نیند بیچ کر تو محبت خریدی تھی

میرا درد میرا ہی درد تھا
بڑا درد ہوا یہ جان کر

ربّ جانے کس کی بانہوں کا سہارا لیتی ہو گی
لپٹ جاتی تھی جو مجھ سے اِس سرد موسم میں

کیوں ناراض ہوتے ہو میری نادان حرکتوں پہ
کچھ دن کی اور زندگی ہے پھر ہم چلے جائیں گے تیرے اس جہاں سے

حُسن دیکھیں گے تیری آنکھوں کا کبھی
کچی نیندوں سے جگا کر تمہیں

مجھ کو نادان سمجھ کر بخش دینا
کیا پتہ یہ نیند ہمیشہ کے لیے سولا دے مجھے

ہم غریب ہیں محبت کے سوا کسی کو کیا دئیں گی
ایک مسکراہٹ تھی وہ بھی بے وفا لوگوں نے چھین لی

کتابِ ماضی جو کبھی کھولو تو بتانا مجھ کو
کیا یاد کرنے کے وعدے صرف میرے تھے؟؟؟

جس جس کو ملی خبر اُس نے گِلہ کیا
تم تو بہت سمجھدار تھے پھر کیوں کی محبت؟؟؟

حوصلہ اُس میں بھی نہ تھا مجھ سے جدا ہونے کا
ورنہ کاجل اُس کی آنکھوں میں نہ پھیلا ہوتا

چلو دیکھتے ہیں کس کا دم نکلتا ہے آج
یہ کہہ کہ رکھ دیے ہونٹ اُس نے میرے ہونٹوں پر

بہت عجیب ہیں یہ بندشیں محبت کی
کوئی کسی کو ٹوٹ کر چاہتا ہے کوئی کسی کو چاہتے ٹوٹ جاتا ہے

بند پنجروں میں پرندوں کو دیکھا ہے کبھی
ایسے سسکتے ہیں محبت کے مجرم اکثر

ٹھوکریں کھا کر بھی اگر نہ سمنبھلے تو مسافر کا نصیب
ورنہ راہوں کے پتھر تو اپنا فرض ادا کرتے ہیں

بڑی حسرت تھی کہ کوئی ہمیں ٹوٹ کے چاہتا
لیکن ہم ہی ٹوٹ گئے کسی کو چاہتے چاہتے

وہ جان گئی تھی مجھے درد میں مسکرانے کی عادت ہے
وہ روز دل دُکھانے آ جاتی تھی میری خوشی کے لیے

سنا ہے سب کچھ مل جاتا ہے دعا سے
پھر بتاﺅ ملتی ہو خود یا مانگوں خُدا سے؟؟؟

جدائی سے تو بہتر تھا تم ہمیں زہر دے دیتی
تمہارا کام ہو جاتا ہمارا نام ہو جاتا

اُس کے دل پہ بھی کیا خوب گزری ہو گی
جس نے اِس درد کا نام محبت رکھا ہو گا

دو چار قدم چل کر ذرا دیکھا دو
لوگ قائل نہیں قیامت کے

ربّ جانے کس کی بانہوں کا سہارہ لیتی ہوگی
لپٹ جاتی تھی جو مجھ سے اِس سرد موسم میں

میں ویلا جٹ ہوں محبت کے سوا کسی کو کیا دوں گا
اک مسکراہٹ تھی وہ بھی بے وفا لوگوں نے چھین لی

جب وفا کی بات آئی تو ہم نے دل نکال کر ہتھیلی پہ رکھ دیا
اُس نے کہا کچھ اور کر کے دکھاﺅ ایسے کھلونوں سے تو ہم روز کھیلتے ہیں

اِشارہ مدد کا کر رہا تھا ڈوبنے والا
یارانِ ساحل نے سمجھا آخری الوداع کر رہا ہے

یہ تو میری انّا نے گوارہ نہ کیا ورنہ
وہ شخص میری کچھ دعاﺅں کی مار تھا

اُس کا عشق چاند جیسا تھا
پورا ہوا تو گٹھنے لگا

خود کلامی اچھی بات تو نہیں لیکن
خود سے تیری باتیں ختم ہی نہیں ہوتی

سُلجھا ہوا سا فرد سمجھتے ہیں مجھے لوگ
اُلجھا ہوا سا مجھ میں کوئی دوسرا بھی ہے

شکستہ دل ہوں مگر مسکرا کے ملتا ہوں
اگر یہ فن ہے تو سیکھا ہے اک عذاب کے بعد

ہم اُن کے ہونٹوں کو چوم کر پیاس بجھانا چاہتے تھے
پر اُن کے ہونٹوں کو چوما تو لگا وہ بھی صدیوں سے پیاسے ہیں

بند پنجروں میں پرندں کو دیکھا ہے کبھی
ایسے سسکتے ہیں محبت کے مجرم اکثر

کسی محبت کے پٹواری سے تعلق ہے تو بتانا
میں اپنا محبوب اپنے نام کروانا چاہتا ہوں

اُسے کہنا تھک سا گیا ہوں خود کو ثابت کرتے کرتے
میرے طریقے غلط ہو سکتے ہیں پر میری محبت نہیں

اتنا قیمتی نہ کر خود کو
لوگ اکثر مہنگی چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں

جب روشن تھی قسمت اپنی تو دنیا ہنس ہنس کے ملتی تھی
اب بستی دل کی اُجڑی تو دوست بھی کنارہ کرتے ہیں

کتابِ تقدیر سے کیا شکوہ اے دلِ ناداں
جب ہر چیز نے مٹ جانا ہے تو خواہش کیسی

خود ہی ہیں باعثِ تکلیف ہم اپنے لیے
ہم ہوتے نہ دل ہوتا نہ دل آزاریاں ہوتی

تم تو اُلجھ کر رہ گئے ہو اپنی ہی زندگی میں
تمہیں کیا یاد کہ کوئی تھی؟ کوئی ہے؟ کہاں تھی؟ کہاں ہے؟

وفا کے نام پہ تم نے سبھی کچھ لوٹ لیا
فقط دو چار سانسیں چھوڑ کر کیوں احسان کرتے ہو

کیا حُسنِ اتفاق ہے کہ اُس کی گلی میں
اک کام سے گئے تھے کہ ہر کام سے گئے

نہ وفا کا ذکر ہو گا نہ وفا کی بات ہو گی
اب محبت جس سے بھی ہو گی مطلب کے ساتھ ہو گی

میرے صبر کا اِس قدر امتحاں نہ لو
مجھے جینے دو میری جان، میری جاں نہ لو

بیگانہ ہم نے تو نہیں کیا کسی کو اپنے سے
جس کا دل بھرتا گیا وہ چھوڑتا گیا

میں تو جیسے پتھر سا ہو گیا
بات اُس کے منہ سے جب وفا کی سُنی

دوسری بار جو ہوتی تو تجھی سے ہوتی
میں بلفرض محبت جو دوباراں کرتا

میخانے میں آیا تو ہوں مگر پیوں گا نہیں
یہ شراب میرے غم کو مٹانے کی اوقات نہیں رکھتی

بیگانہ ہم نے تو نہیں کیا کسی کو اپنے سے
جس کا دل بھرتا گیا وہ چھوڑتا گیا

دیکھنا کہیں وقتِ شام نہ ڈھل جائے
اُسے کہو جلدی آنا میرے شہر میں بارش کا سما ہے

سانسوں کے سلسلے کو نہ دو زندگی کا نام
جینے کے باوجود بھی مر جاتے ہیں کچھ لوگ

اُن کے ہونٹوں کو چوما تو احساس ہوا
اک پانی ہی کافی نہیں پیاس بجانے کے لیے

تم تو حکمت کے بادشاہ تھے اے لقمان
حیرت ہے پھر بھی عشق لا علاج رہ گیا

سوکھے پھولوں کی طرح ہم بھی شاید
گِر چکے ہیں تیری کتابوں سے

کیا عجب ثبوت مانگا اُس نے میری محبت کا
مجھے بھول جاﺅ تو مانو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے

عجب ہنر ہے میرے ہاتھ میں یہ شعر لکھنے کا
میں اپنی بربادیاں لکھتا ہوں لوگ واہ! واہ! کرتے ہیں

اُسے کہنا تجھ سے نہیں وقت سے ناراض ہوں میں
جو کبھی بھی تجھے میرے لیے نہیں ملتا

ممکن ہے تیرے بعد بھی آتی ہو گیں بہاریں
مگر گلشن میں تیرے بعد کبھی جا کر نہیں دیکھا

جذبات پہ قابو ہو اور وہ بھی محبت میں
طوفاں سے کہتے ہو چُپ چاپ گُزر جائے

وہ کہتی تھی کہ اُسے بہت سی دعائیں آتی ہے
کیا بچھڑ کر ملنے کی دعا اُسے یاد نہیں

کاش کہ تیری یاد پہ ثواب ملتا ہم کو
تو ہم آج کھولے عام جنت کے دعوے کرتے

کرو گی یاد تم رو رو کر ہم کو
کہ تھا کوئی پاگل تم کو تم سے زیادہ چاہنے والا

اک تمہارے سوا کون ہے میرا
پھر تنہا کس کے سہارے چھوڑ دیتی ہو 

urdu poetry 1401 to 1500

نزاکت لے کے آنکھوں میں وہ ان کا دیکھنا توبہ
الٰہی میں انہیں دیکھوں یاں اُن کا دیکھنا دیکھوں


وہ اپنے ساتھ مجھے قید کر کے لے جائے
خدا کرے کوئی ایسا قصور ہو مجھ سے


روتے ہوئے وہ مجھ سے لپٹ کر بولی
نفرت ہے مجھے تم سے میرے پاس تم نہ آﺅ


ڈوب کر سورج نے مجھے اور بھی تنہا کر دیا
میرا سایہ بھی الگ ہو گیا میرے یار کی طرح


تم جو کہتی تھی کہ اچھا ہے زمانہ ہم سے
یہ بتاﺅ کہ ملا کوئی ہمارے جیسا؟؟؟


ایک لمحہ بھی اُس کے بغیر برس لگے
اس قدر دل میں سما کر بدل دیا اُس نے


تم میری ہو تو سکتی ہو لیکن
آج کل معجزے نہیں ہوتے


مجھے یقیں ہے کہ تم منفرد ہو اوروں سے
تمہیں گماں ہے کہ شاید میں اوروں جیسا ہوں


کسے یقیں ہو گا کس سے جا کے کہوں
اک بجھے ہوئے چراغ سے میرا ہاتھ جل گیا


ہم نے دل جو واپس مانگا تو سر جھکا کے بولی
وہ تو ٹوٹ گیا یونہی کھیلتے کھیلتے


سولی پہ چڑھا دو اب اِس کو اے جلّاد
بہت کر لی برباد نسلِ آدم اِس عشق نے


وہ کب کا بھول چکی ہو گی دوستی کا قصّہ
بچھڑ کر کسی سے کسی کو کسی کا خیال کہاں رہتا ہے


میرے ہی ہاتھوں پر میری تقدیر لکھی ہے
اور میری ہی تقدیر پر میرا بس نہیں چلتا


سانوں دکھ دی قیمت کی پتا
سانوں یاراں مفت جو دے دِتے


میں کیسے سرد راتوں میں تمہارے گال چھوتا تھا
دسمبر میں تجھے میری شرارت یاد آئے گی


طلب کریں تو میں اپنی آنکھیں بھی اُن کو دے دوں
مگر یہ لوگ میری آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں


قید کر کے تمہارے چہرے کو
میری آنکھوں نے خودکشی کر لی


عشق دوبارہ بھی ہو سکتا ہے
اگر برباد ہونے کا حوصلہ ہو


میں نے کہا ذرا جھوٹ تو بولو
وہ مسکرا کے بولی تم بہت یاد آتے ہو


مُکر گئی ہے تو چاہتوں سے
میری عداﺅں کو خراب کر کے


تیرے درد کی انتہا ہوئی تو دل بھی منافق مذاج ہو گیا
آج دل چاہتا ہے کہ محبت کو گناہِ کبیرہ لکھوں


اتنی سنگدل نہ بن کہ ٹوٹ کر بکھر جاﺅں
تیرے جیسا تو نہیں پر تیری طرح کا ایک دل میرے پاس بھی ہے


نہ کوئی عحد نبھائے نہ ہمنوائی کرے
اُسے کہو دیکھاوا چھوڑے تسلی سے بے وفائی کرے


نہیں کریں گے تم سے کوئی گِلہ آج کے بعد
جب اللہ راضی ہو گا تو تم کیا ہر چیز کو میری ہونا ہو گا


بن ہمارے رہ جائے گی کوئی نہ کوئی کمی
زندگی کو تم جتنا مرضی سنوار لو


افسوس تو ہے تیرے بدل جانے کا مگر
تیری کچھ باتوں نے مجھے جینا سیکھا دیا


روز مر مر کے میرا جینا
کیا تمہیں معجزہ نہیں لگتا


شاید مشکل ہیں ہم سکول کے سبق کی طرح
کہ روز یاد نہ کروائیں تو بھول جاتی ہو


کوئی اور رکھو موضوعِ گفتگو
محبت کا ذکر ہے تو یقینا جُدائی پر ہی ختم ہو گا


ارے ارے! یہ لالی یہ کاجل اور یہ زلفیں بھی کھولی
تم یوں ہی جان مانگ لیتی اتنا اہتمام کیوں کیا


ہمارے دل کو کوئی مانگنے نہیں آتا
کسی غریب کی بیٹی کا ہاتھ ہو جیسے


چاہنے والا بھی ملتا ہے بڑے نصیب سے
تم یہ تسلیم کرو گی میرے بچھڑ جانے کے بعد


سب کی نیندیں حرام کرتی ہو
اے محبت تیری آنکھ کیوں نہیں لگتی


کیوں ہر بات پہ قوستے ہیں لوگ دسمبر کو
کیا دسمبر نے کہا تھا محبت کرو


مجھے اُس جگہ سے بھی محبت ہو جاتی ہے
جہاں ایک بار بیٹھ کر سوچ لوں تجھے


ہاں میں نے تجھے چاہا انکار نہیں ہے مجھ کو
جرم تو ثابت ہے کیا اِس کی بھی صفائی دوں؟؟؟


اِن آنکھوں کو لے ڈوبا دل کا پاگل پن
آتے جاتے جو بھی ملتا ہے تم سا لگتا ہے


سارا دن لگ جاتا ہے خود کو سمیٹنے میں
پھر رات کو تیری یادوں کی ہوا چلتی ہے اور ہم پھر سے بکھر جاتے ہیں


بڑے وعدے کرتے تھے کچھ لوگ دوستی نبھانے کے
ابھی تو زندہ ہیں بھلا دیا مر جاتے تو کیا ہوتا


ہمیں اِس بار مت دینا نیا عنوان یادوں کا
ابھی پچھلے دسمبر کی کئی یادویں بقایا ہیں


کسی لُغت میں نہیں ملتے وہ لفظ
جو تیری آنکھوں سے ادا ہوتے ہیں


آج پھر وہ نکلی بے نقاب شہر میں
آج پھر ہجوم ہو گا کفن کی دکان پر


اپنے لہجے پہ غور کر کہ بتا
لفظ کتنے ہیں تیر کتنے ہیں


ذرا سوچ کر مجھے خود سے جدا کرنا
زندگی زلف نہیں جو پل بھر میں سنور جائے گی


ہمیں کیا پتہ تھا زندگی اتنی انمول ہے
کفن اُٹھا تو دیکھا نفرت کرنے والے بھی رو رہے تھے


قسم سے ظلم ہے میرے ساتھ
تیرے ہوتے ہوئے بھی بانہوں میں تکیہ


بدل جاتی ہے زندگی کی سچائی اُس وقت
جب کوئی تمہارا تمہارے سامنے تمہارا نہیں رہتا


حیراں نہ ہوا کر یوں میرے یاد کرنے پر
تعلق جن سے دل کا ہو وہ ہر پل یاد آتے ہیں


اب کی بار اُس کا حدف میری انا تھی
سو صلح کے پرچم جلا دیے میں نے


کاش ہم جان جاتے تم اتنا خود غرض نکلو گے
تو رشتہ جوڑنے سے پہلے ہاتھ جوڑ دیتے


سوچ کر کرنا اقرارِ وفا سب کو بدلے میں وفا نہیں ملتی
دل کے زخم تو سب کو مل جاتے ہیں لیکن ہر کسی کو اِس کی دوا نہیں ملتی


جو مجھ سے ٹوٹی تھی وہ چوڑیاں سستی تھی
بہت مہنگا تھا وہ دل جو تو نے توڑ دیا


کبھی توڑا کبھی جوڑا کبھی پھر توڑ کے جوڑا
نکارہ کر دیا دل کو تیری پیوند کاری نے


تم آج ہر سانس کے ساتھ یاد آ رہے ہو
اب تیری یاد کو روکھوں یاں اپنی سانس کو ہی روک دوں


یہ میرا حوصلہ ہے تیرے بغیر
سانس لیتا ہوں بات کرتا ہوں


جوک در جوک تمناﺅں کے دوکھے کھا کر
دل اگر اب بھی دھڑکتا ہے تو غلط کرتا ہے


تجھے یاد کر لوں تو مل جاتا ہے سکوں دل کو
میرے غموں کا علاج بھی کتنا سستا ہے


کاش کہ اُنہیں خواب ہی آ جائے
ہماری بے پناہ محبت کا


سخت ویراں ہے محفلِ ہستی
اے غمِ دوست توں کہاں ہے آج؟؟؟


گِلہ بنتا ہی نہیں بے روخی کا
دل ہی تو ہے بھر گیا ہو گا


رات کو پچھلے پہر اُٹھ جاتا ہے
دل تہجد گزار ہو جیسے


ہو سزاِ موت تو کیا لمحہ ہو گا وہ
کہ ہم قاضی سے آخری خواہش میں تیری ملاقات مانگیں


وقت ایک سا نہیں رہتا کبھی سن لو
اُنہیں بھی رونا پڑتا ہے جو اوروں کو رولاتے ہیں


آنکھیں دیکھ کر آج تو طبیب بھی تڑپ کر بولا
کیوں کرتے ہو اتنی محبت کیا زندگی اچھی نہیں لگتی


تیرے پوچھے ہوئے سوالوں کا پھر کبھی جواب دوں گا تجھے
بس کسی اپنے کے دیے ہوئے دوکھے سے سمنبھل جاﺅں


میں غم زدہ لوگوں کو ہنسا دیتا ہوں
مجھ سے کوئی مجھ سا دیکھا نہیں جاتا


جب ملی ہو گی اُسے میرے حالات کی خبر
اُس نے آہستہ سے دیوار کو تھاما تو ہو گا


زندگی تجھ پر بہت غور کیا ہے میں نے
تو رنگین کھلونوں کے سوا کچھ بھی نہیں


ہزار بار ہوئی اُس سے گفتگو لیکن!
ہزار بار کوئی بات رہ گئی مجھ سے


تو بھی نہ مل سکی اور زندگی بھی رائیگاں گئی
تجھ سے تو خیر عشق تھا خود سے بہت گلے رہیں گے


ایسا کوئی تو آیا ہے تیری زندگی میں
جو تجھے میری یادوں کا موقع نہیں دیتا


یہ سرد راتیں بھی کس قدر ظالم ہیں
بظاہر سرد ہوتی ہیں پر اِس میں دل سلگتا ہیں


بس یہی نہ کہ تڑپ تڑپ کے گزرے گی رات
تم یاد نہ کرو گے تو کیا صبح نہیں ہو گی


اجازت ہو تو اک بات پوچھوں؟؟؟
میرے صبر کا امتحاں لیتی ہو یا میری یاد نہیں آتی


یہ جھوٹ ہے کہ محبت کسی کا دل توڑتی ہے
ہم خود ہی ٹوٹ جاتے ہیں محبت کرتے کرتے


میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا
لیکن تیرے بچھڑنے کا سنہا بھی کمال گزرا


ہم تو رات کے بادشاہ ہیں ہمارے ساتھ نہ جاگہ کر
کہیں توں بھی بے رونق چیزوں کا عادی نہ ہو جائے


بے وفائی کے سارے الزام اپنے سر لے کر
میں اُسے آج بھی حیرت میں ڈال آیا ہوں


میری دہلیز پر آ رُکھی ہے محبت
مہمانوازی کا بھی شوق ہے اور اُجڑ جانے کا خوف بھی


مانو! یہ عشق بھی نشہءشراب جیسا ہے
کریں تو مر جائیں چھوڑیں تو کِدھر جائیں


تحریر میں آ جائے اگر جدائی کا لفظ
محسوس یہ ہوتا ہے قلم ٹوٹ رہا ہے


تیری یادوں کو بھول جانے تک
مار ڈالے گا تیرا یاد آنا


دسمبر سرد سے سرد ہوتا جا رہا ہے
ہو با ہو رویہ تیرا ہو جیسے


میری منزل کہاں ہے توں؟ سفر کتنا باقی ہے؟
میرے پاﺅں کے یہ چھالے مجھے آوارہ کہتے ہیں


تا عمر کون کرتا ہے چاہت صاحب!
ملتے ہیں کہاں ذولیخا مِزاج لوگ


کاش میں بھی ایک جھوٹ ہوتا
تجھے ہر بات پر میری ضرورت پڑتی


گھر کے آنگن میں لگے پیڑھ کے کٹ جانے سے
ہم تیرے شکوے پرندوں کو سنانے سے گئے


مزاقِِ میں جو پوچھ بیٹھا اُن سے ہونٹوں کی سرخی کا سبب
تنزِِ اُنہوں نے کہا تمہارا خون پیتی ہوں


صبر سے آگے بڑی ہے بات خدارا لوٹ آﺅ
ہجر میں تیرے چیخنے لگی ہے میری تنہائی


ایسی محبت سے تو اچھا تھا
کہ دل خیرات میں کسی فقیر کو دے دیتے


ابھی تک یاد کر رہے ہو اُس بے وفا کو پاگل ہو تم
اُس نے تو تیرے بعد بھی ہزاروں بھولا دیے ہیں


وہ اتفاق سے مل جائے کہیں رستے میں
مجھے یہ شوق مسلسل سفر میں رکھتا ہے


کیوں نہ سزا ملتی ہمیں محبت میں
آخر ہم نے بھی کئی دل توڑے تھے ایک شخص کی خاطر


کیوں بدلتے جاتے ہیں رویے تیرے؟
جانے یہ لوگ تیرے کان میں کیا کہتے ہیں


عروج پر بھی آﺅں گا ضرور اک دن
میرا ساتھ چھوڑنے والو میرا زوال ساری عمر کا نہیں


علم و حکمت کا جنہیں شوق ہے آئے نہ اِدھر
کوچہءعشق میں کچھ بھی نہیں رسوائی کے سوا


نہیں ملے گا مجھ جیسا چاہنے والا
جا تجھے اجازت ہے دنیا آزما لے


تیری چاہت وہ کربلا ہے
جہاں ہر تمنّا شہید ہوتی ہے


دلوں سے کھیلنے کا ہنر مجھے نہیں آتا
اِسی لیے اعتبار کی بازی میں اکثر ہار جاتا ہوں


جی تو کرتا ہے تیری تنہائی خرید لوں
پر افسوس میرے پاس خود تنہائی کے سوا کچھ بھی نہیں
 

urdu poetry 1301 to 1400

اس قدر بھوکا ہوں صاحب
دوکھا بھی کھا لیتا ہوں


تم مل جاﺅں نجات میں جائے
روز جینے سے روز مرنے سے


صاحبِ شریعت ہو اک فتوٰی تو دو
روخِ یار پہ مرنا بھی شہادت ہے کیا؟


عشق تو ایک قاتل ہے بہت معصوم دلوں کا
جانے کیوں لوگ مجرم کو دل میں پناہ دیتے ہیں


آنسو تھا اُس کا ٹھیک وہی پر گِرا ہوا
خط میں جہاں تھا ترکِ تعلق لکھا ہوا


کبھی جو تھک جاﺅ دنیا کی محفلوں سے تم
ہمیں آواز دے لینا اکیلے ہم بھی رہتے ہیں


میری تصویر بناﺅ تو سب رنگ بھرنا محبت کے
لیکن جب آنکھیں بناﺅ تو آنسو رواں دواں رکھنا


ظلم اتنا نہ کر کہ لوگ کہیں تجھے دشمن میرا
ہم نے زمانے کو تجھے اپنا دوست بتا رکھا ہے


قسم سے تمہیں پانے کی خواہش تو بہت تھی دل کی مگر
مجھے تم سے دور کرنے کی دعا کرنے والے زیادہ نکلے


نہیں ملے گا مجھ جیسا چاہنے والا
جا تجھے اجازت ہے دنیا آزما لے


لوگ شامل تھے اور بھی لیکن!
دل تیری خوشیوں سے ٹوٹا ہے


لہجہءیار میں زہر ہے بچھو کی طرح
وہ مجھے آپ تو کہتی ہے مگر تو کی طرح


اپنے چہرے پہ کوئی درد نہ تحریر کرو
وقت کے پاس نہ آنکھیں ہیں نہ احساس نہ دل


تم دو مجھے فریب اور میں سمجھوں ہنر اُسے
اب اتنی سادگی کا زمانہ نہیں رہا


کاش آنسوں کے ساتھ یادیں بھی بہہ جاتی
تو ہم تیری یاد میں ایک ہی دن بیٹھ کے رو لیتے


اگر ہوتا ہے اتفاق تو یہ کیوں نہیں ہوتا
وہ راستہ بھولے اور مجھ تک چلی آئے


کاش کہ توں میری ہو جائے
کاش یہ تمنا تیری ہوتی


اُس شخص کے پہلو میں سکون کتنا ہے
جب کہ مسجد نہیں مندر نہیں گرجا بھی نہیں وہ


وہ جو بے پناہ چاہتی تھی مجھے
وہی آج مجھ سے پناہ چاہتی ہے


ایک تم ہو کہ ہر دل میں اُتر جاتی ہو
ایک ہم ہیں کہ ہر دل سے اُتر جاتے ہیں


اب کی بار دیکھو وہ کیا فریب دیتی ہے
پھر سے مل رہی ہے بڑی سادگی کے ساتھ


خوشیاں بس ترستی ہیں مجھ سے ملنے کو
اور غم تو بس نہ پوچھو جیسے جگری یار ہو


کبھی پتھر سے لکیریں بھی مٹا کرتی ہے
کتنے پاگل ہے میرے دل سے تیرا نام مٹانے والے


اُسے کہنا قبرستاں بھرے پڑے ہیں ایسے لوگوں سے
جو سمجھتے تھے کہ ہمارے بغیر یہ دنیا اُجڑ جائے گی


عشق نے میرے سب بل نکال دیے
مدت سے آرزو تھی مجھے سیدھا کرے کوئی


اچھا ہوا وہ کسی اور کی ہو گئی
ختم تو ہوئی فکر اُسے اپنا بنانے کی


اک سفر وہ بھی ہے جس میں
پاﺅں نہی دل تھک جاتے ہیں


عمر ساری تو بڑی دور کی بات تھی
ایک لمحے کے لیے کاش وہ میری ہوتی


میری زرخیز آنکھوں پر اِس لیے زوال آیا
اک خواب دیکھ بیٹھا تھا اپنی اوقات سے بڑھ کر


اُس زمانے میں بہت ظالم لوگ ہیں ذرا سنبھل کر چلنا
لوگ سینے سے لگا کر دل ہی نکال لیتے ہیں


کتابوں کی طرح بہت سے الفاظ ہیں مجھ میں
اور کتابوں کی طرح ہی میں خاموش رہتا ہوں


کسی کے ساتھ نہ ہو ایسا حادثہ یاربّ
کہ کسی کے پیار کو کسی سے پیار ہو جائے


تیرے حُسن کو پڑدے کی صورت ہی کیا ہے
کون ہوش میں رہتا ہے تجھے دیکھنے کے بعد


کسی کو اپنا بنانا ہنر صحیح
لیکن کسی کا بن کے رہنا بھی کمال ہوتا ہے


قفس میں رہتے رہتے ہو گئی ہے قید سے الفت
میں خود ہی نوچ لیتا ہوں میرے جب پر نکلتے ہیں


اِس قدر انمول تو نہیں تھا میرا چین و سکون
لوٹ کر لے گئی تم کسی قیمتی خزانے کی طرح


بے روخی اور ان سے بڑی کیا ہو گی
ایک مدت سے ہمیں اُس نے ستایا ہی نہیں


آج قاتلوں کی محفل سجا کے بیٹھا ہوں
ہے دعوت تجھے بھی بے نقاب آنے کی


انسان کی فطرت کو سمجھتے ہیں تو پرندے
لاکھ محبت سے بلاﺅ مگر پاس نہیں آتے


تیری وفا کی خاطر اس قدر بدنام کیا تیرے شہر کے لوگوں نے
اک تیری قدر نہ ہوتی تو تیرا شہر ہی چلا دیتے


چلے جانے دو اُس بے وفا کو کسی غیر کی بانہوں میں
جو اتنی مدت کے بعد میری نہ ہوئی کسی اور کی کیا ہو گی


تم زندگی میں آ تو گئی ہو خیال رکھنا
ہم جان تو دے دیتے ہیں مگر جانے نہیں دیتے


میں نے اُس بے وفا سے کہا تم تو اپنی تھی کیوں چھوڑ گئی مجھے؟؟؟
وہ ہنس کر بولی زندگی بھی تو اپنی ہوتی ہے یہ کیوں چھوڑ جاتی ہے


ایک ہی ٹھوکر میں دل ایسے برباد ہوا
جیسے ہنستا کھیلتا بچہ یتیم ہو جائے


عشق سے اُمیدِ وفا؟؟؟؟
محترم خیر تو ہے؟؟؟؟


بہت مشکل سے ہوتا ہے تیری یادوں کا کاروبار
منافع کم صحیح لیکن گزارا ہو ہی جاتا ہے


فقط حشر پر ہی موقف نہیں عدل و انصاف
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے


طوفاں اور محبت دونوں بہت یادگار ہوتے ہیں
فرق صرف اتنا ہے کہ طوفان میں مکان گر جاتے ہیں اور محبت میں انسان


کہتے ہیں بنا محنت کیے کچھ پا نہیں سکتے
پتہ نہیں غم پانے کے لیے کون سی محنت کی تھی میں نے


حقیقت سے بہت دور ہیں خواہشیں میری
پھر بھی خواہش ہے کہ اک خواب حقیقت ہو جائے


یاں تو تیرا تذکرہ کرے ہر شخص
یاں کوئی ہم سے گفتگو نہ کرے


وہ جس کے بعد قیامت کی صبح آئے گی
کہیں وہ رات شبِ انتظار ہی تو نہیں


اُسے بے وفا جو بولوں تو توہین ہے وفا کی
وہ تو وفا نبھا رہی ہے کبھی اِدھر کبھی اُدھر


تمہارا کیا بگاڑا تھا جو تم نے توڑ ڈالا
یہ ٹکڑے میں نہیں لوں گا مجھے تو دل بنا کر دو


جس جگہ پر لوگ اپنی یادیں دفنا سکیں
شہر میں ایک ایسا بھی قبرستان ہونا چاہیے


میرے محبوب اک تیرے غم کے سوا
جو ملا رستے میں جدا ہو گیا


اُف اُس کے روٹھنے کی عادتیں بھی غضب کی تھی
بات بات پہ یہ کہنا کے دیکھ لو؟ سوچ لو؟ پھر نہ کہنا؟


کرے گا قدر میری بھی زمانہ اک دن
بس وفا کی بُری عادت تو چھوٹ جانے دو


یوں پریشاں نہ کر خود کو میرا حال دیکھ کر
اُجڑے ہوئے لوگ اکثر اسی حال میں ہوتے ہیں


اب کہاں ہے وہ بیٹھنے والی؟؟؟
میرا پہلو سوال کرتا ہے


فقط کسی کی یاد میں رات بھر جاگنے سے نہیں ملتا سکوں
کسی کو یاد کرتے کرتے سو جانے کا بھی اپنا مزہ ہے


ہمیں پتہ تھا کہ تیری محبت کے جام میں زہر ہے
لیکن تیرے پلانے میں خلوص اتنا تھا کہ ہم ٹھکرا نہ سکے


افسانہ عشق جس کو بھی سنایا
اُس نے کہا جٹ تیری جُررات کو سلام


کسی غریب قبیلے کی آبرو کی طرح
ہمارا درد بھی کسی درد میں شمار ہی نہیں


محبت کی شطرنج میں وہ بڑی چال باز نکلی
دل کو مہرا بنا کہ اُس نے زندگی ہی چھین لی


ہوئے متفق دونوں بوسائے رخسار پر
رات گزار دی بحث میں پہلے آپ پہلے آپ


اب تو آنکھوں میں سماتی نہیں صورت کوئی
غور سے کاش تجھے میں نے نہ دیکھا ہوتا


نہ پوچھ محبت کا مفہوم کیا ہے
تمہارے ابھی مسکرانے کے دن ہے


دوری ایسی ہے کہ مٹتی ہی نہیں
میں تیرے پاس بھی آﺅں تو کہاں تک آﺅں


بہت روکا مگر کہاں تک
محبت بڑھتی ہی گئی میرے گناہوں کی طرح


خوشیاں تو کب کی روٹھ گئی ہیں ہم سے
اے کاش ان غموں کو بھی کسی کی نظر لگ جائے


نہیں چھوڑ سکتے دوسروں کے ہاتھ میں تم کو
وآپس لوٹ آﺅ کہ ہم ابھی تک اکیلے ہیں


یہ سوچ کر پلکوں میں چھوپا لیتا ہوں آنسو
گِر کر یہ میری آنکھوں سے میری طرح تنہا نہ ہو جائیں


ہمارے دل کو کوئی مانگنے نہ آیا
کسی غریب کی بیٹی کا ہاتھ ہو جیسے


آج اس قدر یاد آ رہی ہو
جس قدر تم نے بھلا رکھا ہے


آج بچھڑتے وقت بڑے غرور سے اُس نے کہا تم جیسے بہت مل جائیں گے
اور میں یہ سوچ کر مسکرا دیا کہ مجھ جیسے کی ہی تلاش کیوں؟؟؟


داستاںِ وفا بس اتنی سی ہے
اُن کی خاطر اُنہی کو چھوڑ دیا


زندگی دھوپ ہے تپتے ہوئے سہراﺅں کی
جس میں چلتے ہوئے انسان بچھڑ جاتے ہیں


برباد ہو کے یار کے دل میں ملی جگہ
آباد کر گئی میری بربادیاں


تیری یادیں بھی ہیں میرے بچپن کے کھلونوں جیسی
تنہا ہوتا ہوں تو انہیں لے کے بیٹھ جاتا ہوں


محبت تو مقدر ہے ملے نہ ملے
راحت ضرور مل جاتی ہے کسی کو یاد کرنے سے


اُسی عشق سے، اُسی چاہ سے، اُسی مان سے
مجھے آج پھر ملو نہ میں بہت دنوں سے اُداس ہوں


وہ روز مجھے فریب دیتا ہے
ارے زندگی ہے وہ میری اُسے زیب دیتا ہے


شکوے تو یوں کرتی ہو مجھ سے
جیسے صرف میری ہی ہو


میری آنکھوں میں اب بھی چُبتا ہے
تم نے جو خواب توڑ ڈالا تھا


پوچھا جو ہم نے کیسی اور کی ہونے لگی ہو کیا
وہ مسکرا کے بولی پہلے تمہاری تھی کیا


حشر کا تو سنا تھا کوئی کسی کا نہ ہو گا
مگر اب تو دنیا میں بھی یہ چرچا عام ہے


تیری یاد جب آتی ہے تو اُسے روکھتے نہیں ہم
کیوں کہ جو بغیر دستک کے آتے ہیں وہ اپنے ہی ہوتے ہیں


بخدا عشق عزائیل نہیں
پھر بھی لگتا ہے جان لے لے گا


کانچ کے ٹکڑے بن کر بِکھر گئی زندگی میری
کوئی سمیٹنے نہیں آتا ہاتھوں کے زخمی ہونے کے ڈر سے


میں کسی کام کا نہیں ورنہ
توں کسی کام سے ہی آ جاتی


ضرورت اور خواہش دونوں ہی تم ہو
خدا مہرباں ہے کوئی ایک تو پوری ہو گی


وہ مجھ سے روٹھتی ہے تو صرف اس بات پہ
کہ جب تم پیار کرتے ہو تو حد بھول جاتے ہو


رسوائیوں کا آپ کو آیا اب خیال
ہم نے تو اپنے دوست بھی دشمن بنا لیے


تم نے زندگی کا نام تو سنا ہو گا
ہم نے پکارا ہے اس نام سے تجھے اکثر


مثلِ آتِش ہے یہ روگِ محبت
روشن تو خوب کرتی ہے مگر جِلا جِلا کر


سنا ہے مل کے چلنے سے مقدر جاگ جاتے ہیں
یہ بات آزمانے کو چلو اک ساتھ چلتے ہیں


بس کے کنڈیکٹر جیسی ہو گئی ہے زندگی اپنی
سفر بھی روز کا ہے اور جانا بھی کہیں نہیں


جاتے جاتے اُس نے یہ تو کہہ دیا کہ اپنا خیال رکھنا
پر اُس کی آنکھیں بار بار یہی کہہ رہی تھیں کہ اب میرا خیال کون رکھے گا


میں دیکھ تو سکتا ہوں مگر چھو نہیں سکتا
تم جھیل میں اُترے ہوئے سورج کی طرح ہو

urdu poetry 1201 to 1300

سزا میں کوئی رد و بدل کر اے عشق
میری عمر دیکھ میرا مرنا ابھی بنتا نہیں


شہر سارا تھا جنازے میں شریک اُس کے
وہ شخص جو مر گیا تنہائی کے خوف سے


رات گلی میں ملا مجھے کسی بدنصیب کا خط
کہیں خوں سے لکھا ہوا کہیں آنسوں سے مٹا ہوا


افسوس تو یہ ہے کہ توں کمسن بھی نہیں
پھر کیوں تیرے ہاتھوں میں کھلونے کی طرح ہوں


جنہیں فرصت نہیں ملتی ذرا بھی یاد کرنے کی
اُنہیں کہہ دو ہم اُن کی یاد میں فرصت سے بیٹھے ہیں


ٹکڑے پڑے تھے راہ میں تصویر کے بہت
لگتا ہے کوئی دیوانہ سمجھدار ہو گیا


عطاءیار بھی کوئی ٹکراتا ہے بھلا
تیری طرح تیرا غم بھی سر آنکھوں پر


تم دل کو لیے بیٹھے ہو
عشق تو نسلیں اُجاڑ دیتا ہے


اِدھر سے سمیٹیں تو اُدھر سے بکھر جاتے ہیں
اُس نے دُکھ دیتے ہوئے دامن نہیں دیکھا میرا


میں مر جاﺅں تو میرا دل نکال کر اُس کو دے آنا
میں نہیں چاہتا میرے مرنے کے بعد وہ کھیلنا چھوڑ دے


بربادیوں کا جائزہ لینے کے واسطے
وہ پوچھتے ہیں حال بھی میرا کبھی کبھی


عشق جاگا ہے آج سینے میں
ہو گا برباد اب سکوں دل کا


اندیشہ بھی بہت تھا اور احتیاط بھی بہت کی
ہوتے ہوتے وہ شخص جدا ہو ہی گیا


تیری حسرت بھی آ بسی آخر
خواہشوں کے یتیم خانے میں


یہ کیسا خواب تھا جھٹکا سا لگ گیا دل کو
کہ اک بے وفا پریشاں میری تلاش میں تھی


دل تجھے بھولنا بھی چاہے تو مشکل یہ ہے
کس طرح سانس کی زنجیر کو توڑا جائے


ہزاروں مشغلے ہیں جو دل کو مصروف رکھتے ہیں
مگر وہ شخص ایسا ہے کہ پھر بھی یاد آتا ہے


اک عرضے سے میسر ہی نہیں ہے
وہ لفظ کہ جس کو قرار کہتے ہیں لوگ


میں تو اِس لیے چُپ ہوں کہ کوئی تماشہ نہ بن جائے
اور تم سمجھتی ہو مجھے تم کوئی گِلہ نہیں


یہ جو سلسلہ چل نکلا ہے جہاں میں رشوتوں کا
تم بھی کچھ لے دے کے ہمارے کیوں نہیں ہو جاتے


حسرت یہ ہے کہ میں تھام لوں ہاتھ اُس کا زور سے
مگر کمبخت اُس کی چوڑیوں پہ ترس آتا ہے


نہ کیا کر اپنے دردِ دل کو شعاری میں بیاں
لوگ اور ٹوٹ جاتے ہیں ہر لفظ کو اپنی داستاں سمجھ کر


اُس کی جستجو کا انتظار اور اکیلا پن
تھک ہار کے مسکرا دیتا ہوں جب رویا نہیں جاتا


صدا سلامت رہے وہ دنیا جس میں تم بستے ہو
ہم تیری خاطر ساری دنیا کو دعا دیتے ہیں


لوگ جانے گے تجھے میرے حوالے دے کر
میرا ہونا تیرے ہونے کی نشانی ہو گا


بے وفا وقت تھا تم تھی یاں مقدر میرا
بات اتنی ہے کہ انجام جدائی نکلا


مجھے یقیں ہے کہ توں میری کبھی نہیں ہو گی
نہ جانے اپنے یقیں پہ یقیں کیوں نہیں آتا


تجھے چھوڑں تو مر نہ جاﺅں
اُس کی یہی بات بھلائی نہیں جاتی


گزر تو جائے گی زندگی اُس کے بغیر بھی لیکن
ترستا رہے گا دل پیار کرنے والوں کو دیکھ کر


کچھ اُس کو بھی عزیز ہیں اپنے سبھی اصول
کچھ ہم بھی اتفاق سے ضد کے مریض ہیں


جب وقت آیا تو وہ بک چکی تھی
ہمیں امیر ہونے میں زمانے گزر گئے


کبھی پوچھ کر دیکھو مجھے سے اپنی یادوں کا عالم
ساری ساری رات ستاروں سے تیرا ذکر کیا کرتے ہیں


اے شمع ہم سے ضبطِ محبت کا ہنر سیکھ
کمبخت تو اک رات میں ساری ہی جل گئی


چلو مانا کہ تمہاری عادت ہے تڑپانا
ذرا سوچو! کہ ہم مر گئے تو تم کیا کرو گی؟


کبھی نہ کبھی تو وہ میرے بارے میں سوچے گی
کہ حاصل ہونے کی اُمید نہ تھی پھر بھی وفا کرتا رہا


بڑا میٹھا سا زہر تھا اُس کی یادوں میں
ساری عمر گزر گئی مجھے مرتے مرتے


قتل نہ کروں مجھ کو مجھ سے محبت کر لو بےشک
کسی قاضی سے پوچھ لو یہ سزا کم تو نہیں


کبھی یادیں، کبھی باتیں، کبھی پچھلی ملاقاتیں
بہت کچھ یاد آتا ہے تیرے اک یاد آنے سے


ہائے وہ بچپن بھی کتنا حسین تھا جب سرعام رویا کرتے تھے
اب اک آنسو بھی گر جائے تو لوگ ہزاروں سوال کرتے ہیں


سنا تھا دل سمندر سے بھی گہرا ہوتا ہے
پھر اور کیوں نہیں سمایا اِس میں تیرے سوا


اُس نے مجھے پرندہ سمجھ کر بارش میں اُڑا دیا
اُسے یہ بھی نہیں پتہ کہ بارش میں اُڑنے والے پرندے کبھی لوٹا نہیںکرتے


اتنی خاموش محبت کیوں کرتی ہو مجھ سے
لوگ کہتے ہیں اس بدنصیب کا کوئی نہیں


صاف کہہ دو اگر مجھ سے کوئی گلہ ہے
فیصلہ فاصلے سے بہتر ہے


صاحب یوں نہ جھانکو غریب کے دل میں
یہاں ہزاروں حسرتیں بے لباس رہتی ہے


بھرم رکھا ہم نے چاند کا ورنہ یہ ارادہ تھا
ترا بازو پکڑ لیتے اور اُس کے روبرو کرتے


ہم بھلا نہ سکے اک پور خلوص آنکھوں کی خوبصورتی کو
لوگ جگر والے ہیں ہر روز نیا محبوب بنا لیتے ہیں


ہاں محبت کے حوالے سے بہت ظالم ہو تم
توڑ دیتی ہو روز مجھے اپنے وعدوں کی طرح


میری یادوں سے بچھ نکلو تو میرا وعدہ ہے تم سے
میں خود دنیا سے کہہ دوں گا کمی میری وفا میں تھی


لُٹ گئی یوں سرِ بازار وفا کی پونجی
بک گئے ہم کسی مجبور کے زیور کی طرح


محبتوں میں دکھ کے سوا رکھا ہی کیا ہے
کوئی مل بھی جائے تو جدائی کے اندیشے مار دیتے ہیں


بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد محبت نے انتہا کر دی


ارے قربان جاﺅ اُس کی سادگی پر
جو کہہ گئی دل ہی تو توڑا ہے کون سا جاں لے لی


پہلے تو بہت شوق تھا تمہیں ہمارا حال چال پوچھنے کا
مجھے بتا ہم وہ نہیں رہے یاں دن وہ نہیں رہے


اے زندگی جا ڈھنڈ کے لا میرے یاروں کو
وہ اگر نہ ملیں تو سن جا تجھے بھی خدا حافظ


اتنی لمبی عمر بھی نہ مانگ میرے لیے
کہیں ایسے نہ ہو کہ تم بھی چھوڑ دو اور موت بھی نہ آئے


اتنا کچھ ہو رہا ہے دنیا میں
کیا تم میری نہیں ہو سکتی


درجہ بندی دیکھی جائے تو میرے یار اول ہیں
روٹھ جانے میں دل جلانے میں اور بھول جانے میں


کفن میں لپٹے میرے چہرے کو اُس نے یوں تڑپا کے رکھ دیا
نئے کپڑے کیا پہن لیے کسی کو دیکھتے ہی نہیں


ہم نے پوچھا آج میٹھے میں کیا ہے؟
اُس نے انکلی اُٹھائی اور اپنے ہی ہونٹوں پہ رکھ دی


اُسے کہنا کہ یوں نقاب کر کے میرے سامنے سے نہ گزرا کرے
نگاہِ عشق تو پتھر بھی چیر دیتی ہے


تم کسی اور سے معلوم تو کر کے دیکھو
ہم کسی اور کے کتنے ہیں تمہارے کتنے


مبتلاِ عشق دیکھ کر وہ صاحبِ عقل بولے
لگتے معصوم ہو پر برباد ہو گئے ہو


اے محبت شرم سے ڈوب مر
صرف ایک بے وفا کو میرا نہ کر سکی


ہم نے سوچ رکھا ہے تیرے لوٹ آنے پر
طنز کرنے والوں کو خوب جلائیں گے


ہوتا جو اگر یہ ممکن تو میں تمہیں سانس بنا کر دل میں رکھتا
تو رُک جائے تو میں نہیں میں رُک جاﺅں تو تو نہیں


چھوڑ تو سکتے ہیں مگر چھوڑ نہیں پاتے
وہ شخص میری بگڑی ہوئی عادت کی طرح ہے


سوزِ دوزخ بھی، لطفِ جنت بھی
ہائے کیا چیز ہے یہ محبت بھی


وہ اک رات جلی تو اُسے شمع کہہ دیا
ہم برسوں سے جل رہے ہیں کوئی تو خطاب دو


ہمیں صورت سے کیا مطلب سیرت پہ مرتے ہیں
اُسے کہنا تمہارا حُسن ڈھل جائے تو لوٹ آنا


سب کو سیرابِ وفا اور خود کو پیاسا رکھا
مجھ کو لے ڈوبے گا دل تیرا دریا ہونا


مجھ کو کھو دو گی تو پچھتاﺅ گی بہت
یہ آخری غلطی ذرا سوچ کر کرنا


لے لو واپس وہ آنسو وہ تڑپ اور وہ ادائیں ساری
نہیں کوئی جرم میرا تو پھر یہ سزائیں کیسی


آئینے میں وہ دیکھ رہی تھی بہارِ حُسن
آیا میرا خیال تو شرما کے رہ گئی


جب کسی اور کے ہو جائیں گے نہ ہم
ہاں پھر تیرا غرور ٹوٹے گا


دیکھی جو تیری بے روخی تو آنسو نکل پڑے
دنیا تو بے وفا تھی لیکن تجھے کیا ہوا


بیٹھے تھے اپنی مستی میں کہ اچانک تڑپ پڑے
آ کر تیرے خیال نے اچھا نہیں کیا


قسموں کو توڑنے کی تو نیت نہ تھی مگر
زلفوں کو رُخ پہ دیکھ کر نیت بدل گئی


تم آﺅ تو تمہاری نظر اُتاریں ہم
دل کو پھینک دیں تیرے سر سے وار کر


قسمت ساتھ نہ دے تو محبت نفرت میں بدل جاتی ہے
اکثر کانٹا لگنے پر لوگ پھول کو پھینک دیا کرتے ہیں


اُس کے لیے اہم اور وہ بھی ہم اُف اُف اُف
اے دلِ ناداں بس کر پاگل ہے کیا


جن کے ملنے کے منتظر تھے اک عرضے سے
کمال کا شخص تھا آیا بھی تو الوداع کہنے


ہاتھ کی نبض بھی کاٹ بیٹھے ہیں
شاید کہ وہ دل سے نکل جائے خوں کے ذریعے


شبِ وصال ہے گل کر دو اِن چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والو ©ں کا


اے عشق تیری تقدیر ہوتی اگر میرے ہاتھوں میں
قسم خدا کی بہت رُلاتا تجھے بھی


جو ہرگز ہرگز نہ چھوڑی جائے
ایسی عادت بن گئی ہو تم


ہم میں تو خیر ہمت ہے درد سہنے کی
تم اتنے دُکھ دیتی ہو تھک تو نہیں جاتی


بچھڑنا ہے تو یوں کرو روح سے نکل جاﺅ
رہی بات دل کی تو اُسے ہم دیکھ لیں گے


وہ ساتھ تھی تو مانو جنت تھی زندگی
اب تو ہر سانس جینے کی وجہ پوچھتی ہے


آج اُس نے میری محبت میں کسی اور کو شریک کیا تو احساس ہوا یاربّ
کہ تو شرک کرنے والوں کو معاف کیوں نہیں کرتا


سنو یہ جو عشق ہے نہ جان لے لیتا ہے
مگر موت پھر بھی نہیں آتی


نہ جانے کیوں مگر اِس جھوٹی دنیا کے جھوٹے لوگ
وفائیں کر نہیں سکتے باتیں ہزار کرتے ہیں


کیا ملا ہمیں ساری عمر برباد کر کے
بس اک شعری کا ہنر اور اک راتوں کو جاگنا


تلاش کر نہ سکا پھر مجھے وہاں جا کر
غلط سمجھ کر جہاں اُس نے کھو دیا تھا مجھے


ہر بات تیری مانو یہ ناممکن ہے
ضد چھوڑ دے اے دل تو اب بچہ نہیں رہا


پروانے کو شمع پہ جل کے کچھ تو ملتا ہو گا
صرف مرنے کی خاطر تو کوئی محبت نہیں کرتا


وہ تیری نہیں وہ کسی اور کی ہے اے دل چُپ کر کے سو جا
رات رونے کے لیے نہیں سونے کے لیے ہوتی ہے


شدتِ عشق کو کیا روئیں کے ہم نے دل میں
دردِ دنیا بھی ضرورت سے زیادہ رکھا


مجھے جب تم سے ملنے کی طلب ہوتی ہے شدت سے
تیری تصویر سے لڑ کر میں رو کر بیٹھ جاتا ہوں


آپ کے بغیر یہ دھڑکنا ہی نہیں چاہتا
یقیں مانیے بہت پاگل سا ہے میرا دل


اُس کے لب اور پھر وفا کی قسم
ہائے کیا قسم تھی خدا کی قسم

urdu poetry 1101 to 1200


منسوب اُس کے قصّے اوروں سے بھی تھے لیکن
وہ بات بہت پھیلی جو بات چلی ہم سے


کاجل آنکھوں میں ڈال کر وہ بولی
کیجیں اب شمار لاشوں کا


پھر اُس کی یادیں پھر اُس کی باتیں
اے دل لگتا ہے تجھے تڑپنے کا بڑا شوق ہے


اُس کی یادوں میں میرا دل یوں گِرا رہتا ہے
جیسے دربار پہ ہو اہلِ عقیدت کا ہجوم


جس کی فطرت تھی بغاوت کرنا
توں نے اُس دل پہ حکومت کی ہے


کون کہتا ہے کہ نفرتوں میں درد ہے
کچھ محبتیں بھی بڑی اذیت ناک ہوتی ہیں


ایسے اندازِ محبت پہ محبت ہے قربان
دل میں آنا ہے تو آ جاﺅ اجازت کیسی


یہ بھول ہے اُس کی آغازِ گفتگو ہم کریں گے
ہم تو خود سے بھی روٹھ جائیں تو برسوں خاموش رہتے ہیں


تمہیں نہ سوچوں تو بچ سکتا ہوں
طبیب نے یہ آخری دوا ہاتھ جوڑ کے بتائی ہے


میں زہر تو پی لوں یار کی خاطر
پر شرط یہ ہے کہ وہ سامنے بیٹھ کر مجھے مرتا دیکھے


اُس کی بے وفائی سے میں جان گیا ہوں
کہ دل بسانے کے لیے نہیں توڑنے کے لیے ہوتے ہیں


تم تو سو جاتی ہو میری یادوں سے بے خبر ہو کر
میری رات گزر جاتی ہے تجھے یاد کرتے کرتے


بے وفاﺅں سے وفا کی اُمید کبھی مت رکھنا
مٹی کے گھر دریا کو کبھی اچھے نہیں لگتے


اے دل پریشاں مت ہو
وہ نہ سہی موت تو آئے گی


ہم نے آغوشِ محبت سے یہ سیکھا ہے
جس کو رونا نہیں آتا وہ محبت کر لے


کہاں تک چلنا ہے اور کہاں پہ بچھڑنا ہے
ابتداءعشق ہے ابھی سے معاہدہ کر لو


نہیں فرصت یقیں مانو ہمیں کچھ اور کرنے کی
تیری باتیں تیری یادیں بہت مصروف رکھتی ہے


مجھے معلوم تھا کہ وہ میری نہیں ہو سکتی
بس ذرا سا شوق ہے اُس کی خاطر زندگی برباد کرنے کا


اے موت کیا ہوا تجھے
ناراضگی ختم کر اب آ بھی جا


ذرا دیکھنا اُٹھ گئے سنم نیند سے
سنا ہے بہت سوتے ہیں یہ دل توڑنے والے


جدا رہنے کا شوق بھی پورا کر لے
لگتا ہے تجھے ہم زندہ اچھے نہیں لگتے


تو جو آئے تو ہم مل کر سمیٹے دونوں
مجھ اکیلے سے نہیں ہجر سنبھالا جاتا


اگر چھوڑنا بھی ہو تو ممکن جواز رکھنا
ہم بے وجہ سزائیں بہت کاٹ چکے ہیں


نہ نیند ہے ان آنکھوں میں نہ ہے کوئی خواب
بس لامحدود اُداسی ہے بے انتہا چاہت کے ساتھ


کچھ تو بتا اے اُداس راتوں کی دھندلی چاندنی
بھولنے والوں کو آخر کسی طرح یاد آﺅں میں


خود کو مصروف سمجھتی ہو ذرا اک بات بھی سن لو
جس دن ہم ہوئے مصروف تو تمہیں شکوے بہت ہوں گے


آنکھوں کا ہے فریب یا عکسِ جمال ہے
آتی ہے کیوں نظر تیری صورت جگہ جگہ


اُس کا قصور نہیں مجھے تو غصّہ ہے اپنے دل پر
نہیں دیکھی اوقات اپنی بس سما لیا اُسے خود میں


اُس نجومی نے تو مجھے پریشانی میں ڈال دیا
کہتا ہے مجھے موت نہیں کسی کی یادیں مار ڈالیں گی


زندگی کر نہ سکی اس درد کا علاج
سکوں تب تب ملا جب تجھے یاد کیا


اگر اچھا ہی لگتا ہے میرا مر جانا تو اک ترکیب عرض ہے
لگا کر زہر ہونٹوں کو میری بانہوں میں آ جاﺅ


بے وفائی تو یہاں سبھی کرتے ہیں
تم تو سمجھدار تھی کچھ تو نیا کرتی


کون کرتا ہے وفاﺅں کے تقاضے تم سے
میں تو اک جھوٹی تسلی کا طلبگار ہوں بس


اُس نے پوچھا زندگی کس نے برباد کی
ہم نے انگلی اُٹھائی اور اپنے ہی دل پہ رکھ دی


ارے او دل تجھے کب تک کوئی سمجھائے گا
اتنی مدت میں تو پاگل بھی سُدھر جاتے ہیں


میں تمہیں بھولنے کا سوچوں تو
دھڑکنیں احتجاج کرتی ہیں


میری محبت کا کچھ یوں سلسلہ رہا
میں اُسے اور وہ دنیا کو دیکھتا رہا


اتنی خاموشی کیوں ہوتی ہے تیری آغوش میں اے قبرستاں
لوگ تو اپنی جاں دے کر تجھے آباد کرتے ہیں


تیرے جانے کے بعد کون روکتا ہم کو
جی بھر کر خود کو برباد کیا ہم نے


جب لے کر میرا نام پکارا اس نے سرِ محفل
بن بن کے کئی لوگ میرے نام کے اُٹھے


اچھا ہوا جو ذہن میں آ گئی بات
دل کی مانتے تو برباد ہو گئے ہوتے


کفن میں لپٹی ہوئی میری لاش کو دیکھ کر رونا نہیں
وہ فقط آخری ملاقات ہو گئی مسکرا کر الوداع کہنا


سوچا آج کچھ تیرے سوا سوچوں
ابھی تک اسی سوچ میں ہوں کہ کیا سوچوں


تم سے وابستہ خوش فہمی کا یہ عالم تھا
موت کی ہچکی آئی اور ہم سمجھے تم نے یاد کیا ہے

درد کی داستاں ابھی باقی ہے
محبت کا امتحاں ابھی باقی ہے
دل کرے پھر وفا کرنے آ جانا
دل ہی تو ٹوٹا ہے جان ابھی باقی ہے

ایسی بے وفائی کی اُس بے وفا نے کہ محبت بھی بدنام ہو گئی
اپنی محبت کی ایسی قیمت وصول کی اُس نے کہ ہماری قبر تک نیلام ہو گئی


قسم سے تجھے پانے کی خواہش تو بہت تھی
مگر تجھے سے دور کرنے کی دعا کرنے والے زیادہ نکلے


ساقی آج رکھ عنوانِ وفا محفل میں
وہ شخص اُٹھ کر چلا نہ جائے تو مجھے کافر کہنا


سنو! میرا دل تم رکھ لو
میرے پاس تو بہت اُداس رہتا ہے


وہ کتنی مہرباں تھی کہ ہزاروں غم دے گئی
ہم کتنے خود غرض نکلے کچھ نہ دے سکے محبت کے سوا


ارے ہم کیسے کریں سونے کی خواہش
نیند دے کر تو محبت خریدی ہے


میں میسر نہیں ہوں خود کو
اور وہ میرے لیے ترستی ہے


معلوم ہوتا ہے بھول گئے ہو شاید
یا پھر کمال کا ضبط رکھتے ہو


پھر سے ہو رہی تھی محبت انہیں مجھ سے
نہ کھلتی آنکھ تو بس وہ میری ہو چکی ہوتی


چلو آج چلتے ہیں ویرانیوں کی طرف
بہت دن ہو گئے دل سے ملاقات کیے


تجھ سے محبت تھی جو تیری بے وفائی برداشت کر گئے
ورنہ تیرے سینے سے تیرا دل نکال لیتے جو محبت کے قابل نہیں


مانا کہ غم کے بعد ملے گئی مسکراہٹیں
لیکن جیئے گا کون تیری بے روخی کے بعد


پہلے عشق پھر اُس میں شرک اور پھر بے حد نفرت
بڑی ترتیب سے اک شخص نے تباہ کیا مجھے


میں نے اُس کے بدلے ہوئے لہجے کی وضاحت پوچھی
کچھ دیر تو خاموش رہی پھر مسکرا کے بولی جب لہجے بدل جائیں تو وضاحتیں کیسی


سنو! عشق نے پیغام بھیجا ہے
ہے کوئی؟ جو رہ گیا ہو برباد ہونے سے


اُس کی یاد آئی ہے دھڑکنوں ذرا آہستہ چلو
دل کی دھک دھک سے تصور میں خلل آتا ہے


کیوں ہوتا ہے یہ اعتبار کی دہلیز پہ اکثر
بہت اپنے جو ہوتے ہیں وہ اکثر چھوڑ جاتے ہیں


مجھے اِس سے اُس سے کیا
فقط اتنا سن میرا ساتھ دے کہ میں جی سکوں


کاش پھر کسی پیاس کے صحرا میں مجھے نیند آ جائے
اور میں خواب میں مانگوں تجھے پانی کی طرح


تجھے برباد کر دوں گی ابھی بھی لوٹ جا واپس
محبت نام ہے میرا مجھے قاتل بھی کہتے ہیں


تم ذرا ہاتھ میرا تھام کے دیکھو تو صحیح
لوگ جل جائیں گے محفل میں چراغوں کی طرح


دل تھا اکیلا اور غم تھے ہزاروں
افسوس اکیلے کو مل کر ہزاروں نے لوٹا


ڈھنڈا کرو گی اک روز ہمارے پاگل پیار کو
سو جائیں گے کسی روز جب زمیں اوڑھ کر


بہت سوچا بہت سمجھا بہت ہی دیر تک پرکھا
تنہا ہو کے جی لینا محبت سے تو بہتر ہے


قدم ہی رکھا تھا میخانے میں کہ آواز آئی
چلا جا تجھے شراب کی نہیں دیدار کی ضرورت ہے


کاش کوئی ہمارا بھی وفا دار یار ہوتا
سینا تان کے چلتے بے وفاﺅں کی گلیوں میں


عضاءتو اور بھی بہت ہیں جسم میں احساس کے لیے
مگر بس دل ہی کیوں ہر درد کو محسوس کرتا ہے


مرتا نہیں کوئی کسی کے بغیر یہ حقیقت ہے زندگی کی
لیکن صرف سانس لینے کو تو جینا نہیں کہتے


نہ اثر دعا نے کیا، نہ آنسوں نے سفر کیا
تجھے مانگ مانگ کے تھک گئے میرے ہونٹ بھی میرے ہاتھ بھی


تنہائیوں کا ایک الگ ہی مزا ہے
اس میں ڈر نہیں ہوتا کسی کے چھوڑ جانے کا


کر لی نہ تسلی توں نے دل توڑ کے میرا
کہا بھی تھا کچھ نہیں اس میں تمہارے سوا


بہت مشکل سے ہوتا ہے تیری یادوں کا کاروبار
منافع کم ہی ہے لیکن گزارا ہو ہی جاتا ہے


تفصیل سے کیسے سنائیں یہ قصّہ محبت کا
کہ تم مصروف ہو اب تک ہمیں برباد کرنے میں


اک رونے سے تو مل جائے تو خدا کی قسم
اس دھرتی پہ برسات کر دوں


تیری یادوں کی الفت سے سجی ہے زندگی میری
میں پاگل ہوں جو تجھ کو بھول کے ویراں ہو جاﺅں


دلِ محذب میں نہیں واجب کسی کو دغا دینا
پھر لوگ کیوں بدل جاتے ہیں کسی طوائف کے یار کی طرح


اگر وہ آئے میرے مرنے پہ اور پوچھے میرے مرنے کی وجہ تو کہہ دینا
کسی کی یاد میں تھا اتنا کھویا کہ سانس لینا ہی بھول گیا


بڑا سفارشی تھا نہ اُس بے وفا کا توں اے دل
اب میرے سینے میں منہ چھوپا کے کیوں روتا ہے رات بھر


قافلوں کے قافلے قدموں کے نشاں چھوڑ گئے
اک میرا ہی درد تھا جو ہجرت نہ کر سکا


پلا سارا میخانہ اگر ہوش اُڑھ جائے تو گلہ کرنا
لیکن شرط یہ ہے کہ محفل میں ذکرِ یار نہ ہو


ادابِ وفا بھی سیکھو عشق کی بارگاں میں
فقط یوں دل لگانے سے دلوں میں گھر نہیں بنتے


کیا کہا آج بہت یاد آئی ہے
کویا بھول گئی تھی؟؟؟


تیری یاد میں کی ہے میں نے سمندروں سے دوستی
نہ جانے پھر بھی کیوں مجھے تیرے لفظوں کی پیاس رہتی ہے


کتنے ناداں ہو جو ابھی اُس کی یادوں کو سینے سے لگائے بیٹھے ہو
گزرا وقت ستاتا ضرور ہے مگر لوٹ کر نہیں آتا


دل کا روگھ تھا یادیں تھی اور نہ یہ ہجر
تیرے عشق سے پہلے کی نیندیں بھی کمال کی تھی


صبح کے اُجالوں میں ڈھنڈتا ہے تعبیریں
دل کو کون سمجھائے خواب خواب ہوتے ہیں


امیر باپ کی بگڑی ہوئی اولاد کی طرح
دل نے تجھے پانے کی ضد لگا رکھی ہے


جلوے تو بے پناہ تھے اِس کائنات میں
یہ اور بات ہے کہ نظر تم پہ رُکھ گئی


دل چاہتا ہے دھوکے سے زہر دے دوں
آج سب خواہشوں کی دعوت کر کے


شبِ تنہائی میں یوں بھی وقت گزرا ہے اپنا
تجھ ہی کو سوچتے رہنا بالوں و نوچتے رہنا


مجھے آسیب نے گھیرا ہے یا تیری یادوں نے
رات ہوتی ہے بیمار سا پڑ جاتا ہوں


اے عشق سنا تھا کہ توں اندھا ہے
پھر میرے دل کا رستہ تم کو بتایا کس نے


سنو! تم جان ہو میری
سنو! بے جان نہ کر جانا


تیری نظر بھی اس دور کی زکوٰة ہو جیسے
جو مستحق ہے اُس تک پوچھتی ہی نہیں


محبت میں یوں زبردستی اچھی نہیں ہوتی
جب تمہارا دل چاہے تم میرے ہو جانا

urdu poetry 1001 to 1100

پاگل نہ کر دے تیرا یوں دور دور رہنا
لوٹ آﺅ بارشوں میں دوریاں اچھی نہیں لگتی


مجھے دیکھ کر وہ صاحبِ علم بولا
تیری سادگی بتاتی ہے تجھے ہنسنے کا شوق تھا بہت پہلے


لاکھ کوشش کی مگر نکل ہی گئے
جنت سے آدمؑ، گھر سے یوسفؑ، اور تیرے دل سے ہم


اُسے کہنا فالتو وہم نہ پالا کرے
یہ دل کوئی کھلونا نہیں جو ہر اک کو دے دیں گے


بن جاتا ہے کبھی حُسن بھی دنیا میں تماشہ
عبرت کے لیے مصر کا بازار بہت ہے


مجھے عشق کے اُس مقام پہ لا کے چھوڑ دیا اُس نے
جہاں زندگی تو مٹ سکتی ہے مگر اُس کی یادیں نہیں


یہ مت سوچنا کہ توں نے چھوڑ دیا تو مر جاﺅ گا
وہ بھی جی رہے ہیں جن کو تیری خاطر ہم نے چھوڑا تھا


تیری یاد کے آنسوں میں تپش اتنی تھی
بہا کے آنسو ہم اپنے ہی رخسار جلا بیٹھے


سکوں کا ایک لمحہ بھی نہیں میسر مجھ کو
یادوں کو سلاتا ہوں تو تنہائی جاگ اُٹھتی ہے


زندگی دردِ مسلسل کے سوا کچھ بھی نہیں
لوگ کیا سوچ کر زندگی کی دوا دیتے ہیں


ہاتھ زخمی ہوئے کچھ اپنی بھی غلطی تھی
لکیروں کو مٹانے چلے تھے اک شخص کو پانے کے لیے


ہاں یاد آیا اُس کے آخری الفاظ یہ تھے
اب جی سکو تو جی لینا پر مر جاﺅ تو بہتر ہے


زمانے والے اکثر میرے مرنے کی دعا کرتے ہیں
نہ جانے وہ کون ہے جس کی دعا سے ہم جی رہے ہیں


چہرہ بتا رہا تھا کہ بھوک نے مارا ہے
اور لوگ کہہ رہے تھے کہ کچھ کھا کے مر گیا


کہتی تھی جو تیری خاطر جان بھی لوٹا دوں گی
آج کہتی ہے میرا ہاتھ چھوڑ دو میری عزت کا سوال ہے


شدتِ عشق نے یہ حال کیا ہے میرا
نبض چلتی ہے تو دُکھتی ہے کلائی


تیری وفا کے تقاضے بدل گئے ورنہ
مجھے تو آج بھی تم سے عزیز کوئی نہیں


اُتر جاتے ہیں کچھ لوگ دل میں اِس قدر
جن کو دل سے نکالو تو جاں چلی جاتی ہے


جنازہ میرا روکھ کر وہ اِس انداز سے بولی
ہم نے تو دوستی ختم کی تھی تم نے تو زندگی ہی ختم کر ڈالی


آﺅ مل کے ماتم کریں محبت کا
تم عشق کی زنجیر زنی کرو میں وفا کی آگ پہ چلتا ہوں


ساتھ چھوڑنے والوں کو تو ایک بہانہ چاہیے
ورنہ نبھانے والے تو موت تک نبھاتے ہیں


اُٹھا کر دل میرا اُس نے وہی پتھر پہ دے مارا
میں کہتا رہ گیا دیکھو! اِس میں تم ہو صرف تم ہو


سنو! تم خواب ہو میرا
سنو! تم خواب نہ بن جانا


ہم سے زندگی کی حقیقت نہ پوچھ
بہت مطلبی تھے لوگ جو تنہا کر گئے


نہیں ہے شکوہ تیرے طرزِ تغافل سے
شاید مجھے ہی نہیں آتا دلوں میں گھر کرنا


بس جان چلی جائے گی ہماری
کیا ہو گا محبت میں زیادہ سے زیادہ


اِس طرح لوٹ لیا عشقِ تمنّا نے ہمیں
زندگی چھین بھی لی جان سے مارا بھی نہیں


ایسے زخموں کا کیا کرے کوئی
جن کو مرہم سے آگ لگ جائے


خود کو مارنا حرام ہے
تیرے بن جینا بھی تو جائز نہیں


ڈر ہے کہ بچھڑ نہ جاﺅ تم کہیں مجھ سے
زمانہ مجھے تنہا دیکھنے کا طلبگار بہت ہے


چُپ کر اے دل ہوش میں آ
مصروف لوگ فرصت میں یاد کیا کرتے ہیں


چلو آﺅ پھر مٹی سے کھیلیں ہم
عمر ہی کیا تھی جو دل سے کھیل بیٹھے


تم سے بچھڑ کر کتنا بگڑ گیا ہوں دیکھو!
بہت رات گئے تک گھر آتا ہوں


اپنے قدموں کے نشاں میرے رستے سے ہٹا دینا
کہیں یہ نہ ہو کہ میں چلتے چلتے تیرے پاس آ جاﺅں


سوچوں تو ساری عمر محبت میں کٹ گئی
دیکھوں تو ایک شخص بھی میرا نہ ہو سکا


خوشیاں ہوں تو نیندوں کا بھی رہتا ہے سلسلہ
چاہنے والے بچھڑ جائیں تو سویا بھی نہیں جاتا


ہے کوئی جنازہ پڑھنے والا؟
میں اپنے دل کو مار بیٹھا ہوں

میں نے اُس سے کہا کہ کہہ دو ساری دنیا کے سامنے کہ تم میری ہو
اُس نے میرے کان میں کہا کہ میں صرف تمہاری ہوں
میں نے کہا ساری دنیا کے سامنے کہو
اُس نے کہا جٹ جی میری دنیا ہی تم ہو

کبھی فرصت ملی تو جی لوں گا
اِس تبسم پہ آج مرنے دو


ہم کسی کے قابل نہیں اسی لیے سب سے دور رہنے لگے ہیں
ورنہ تنہائی کی کیا مجال کہ ہمیں تباہ کر دے


صرف اتنی سی بات پہ زمانے نے لقب کافر کا دے دیا
کہ خدا کے نام پہ کچھ نہ دیا اور یار کے نام پہ جاں دے دی


میں تو راتوں کا مسافر ہوں میرے ساتھ نہ چل
یوں نہ ہو تم بھی اندھیروں میں کھو جاﺅ میری طرح


ہم نے آغوشِ محبت سے یہ سیکھا ہے
جس کو رونا نہیں آتا وہ محبت کر لے


کیوں اُلجھتی ہو ان سوالوں میں
بے وفا تم نہیں تو ہم ہوں گے


ابھی جستجو میں ہوں تو احساس نہیں تمہیں میرا
رو رو کے پکارو گی خدا کی قسم مر تو جانے دو


تیری محبت میں کچھ یاد نہیں مجھ کو
ربّ جانے دنیا میں کس کام سے آیا تھا


لے دے کے وہی شخص ہے اِس شہر میں اپنا
ڈر ہے کہ دنیا اُسے سمجھدار نہ کر دے


یاد ہے ہمیں اپنے سب کے سب گناہ
اک محبت کر لی، دوسرا تم سے کر لی، اور بے پناہ کر لی


کبھی ہم بھی محبت میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتے تھے
پتہ تب لگا جب ہم وفا مانگتے رہے فقیروں کی طرح


معلوم ہوتا تجھے چاہنے کی اتنی بڑی سزا ہو گی
خدا کی قسم پہلے سزا لیتے پھر تمہیں اپنا لیتے


یہ سبق مجھے عشقِ مجنوں سے ملا ہے
وہ عشق عشق نہیں ہوتا جو بدنام نہ ہو


ہماری پیاس کا انداز ہی الگ ہے
کبھی دریاوں کو ٹکراتے ہیں تو کبھی آنسو تک پی جاتے ہیں


تمہارے پاس ہی ہو گا ذرا ڈھنڈو اُسے
وہ ٹوٹا ہوا دل آخر گیا کہاں؟؟؟


میں اُس کا لمحہءمجود ہوں مگر وہ شخص
فضول وقت سمجھ کر گزارتا ہے مجھے


بیٹھ جاتی ہے میرے پہلو میں آ کر اکثر
تیری یاد میرے گھر کا فرد ہو جیسے


کہاں سے لاﺅں میں روز اک نیا دل
حُسن والوں نے تو اندھیر مچا رکھا ہے


مزاجِ یار سے جوں جوں شناسہ ہوتا جا رہا ہوں
میں اور تنہا، اور تنہا، اور تنہا ہوتا جا رہا ہوں


صبح اُٹھتے ہی صدقہ دیا
محبت کر بیٹھا تھا خواب میں


ہم نے کبھی چاہا تھا ایک ایسے شخص کو
جو آئینے سے بھی نازک تھا مگر تھا پتھر کا


توں تھی تو کہیں وقت ٹھہرتا ہی نہ تھا
اب وقت گزارنے میں بھی بہت وقت لگتا ہے


لوگ دیکھیں گے تو افسانہ بنا ڈالیں گے
یوں میرے دل میں چلی آﺅ کہ آہٹ بھی نہ ہو


ابھی تک موجود ہے اِس دل میں تیرے قدموں کے نشاں
تمہارے بعد اِس راہ سے کوئی گزرا ہی نہیں


سنا ہے کوئی اور بھی چاہنے لگا ہے تمہیں
ہم سے بڑھ کر اگر کوئی چاہے تو اُس کی ہو جانا


تیرا نام لینے سے اک خوشی سی ہوتی ہے
کہیں مجھے محبت؟؟؟ ارے نہیں نہیں خدا نہ کرے


میں نے دھڑکن کی طرح دل میں بسایا ہے تمہیں
اب تمہاری مرضی ہے دھڑکو یاں میری جاں لے لو


وفائیں کر کے کچھ نہیں ملے گا لوگ بھول جاتے ہیں
کرنی ہے تو بس بے وفائی کرو صدا یاد رہو گے


اجازت ہو تو اک عرض کروں
کھیل چکی ہو تو دل وآپس کر دو


حیرت ہوئی ہے تمہیں مسجد میں دیکھ کر
ایسا بھی کیا ہوا کہ خدا یاد آ گیا


دھڑکنیں گنجتی ہیں سینے میں
اتنے سنسان ہو گئے ہیں ہم


یہ علاج بتایا ہے طبیب سے اُسے بھلانے کا
کہ رفتہ رفتہ تم اپنی یاداشت کھو بیٹھو


بہت ستایا ہے رات بھر کسی کی بے بس یادوں نے
اے سورج نکل بھی آ کہ اب رویا نہیں جاتا


تم یہ مت سمجھنا کہ ہمیں کوئی نہیں چاہتا
تم چھوڑ دو گی تو موت اپنا لے گی


جا جا دھڑک اُس کے سینے میں اے دل
اُس کے بینا جی رہے ہیں نہ، تیرے بینا بھی جی لیں گے


بچھڑ کے بھی وہ روز ملتی ہے مجھے خوابوں میں
اگر یہ نیند نہ ہوتی تو ہم تو مر گئے ہوتے


اِس زندگی کا کیا بھروسہ جتنا نظرانداز کرنا ہے کر لو
ہم بھی اُن لمحوں کی طرح گزر جائیں گے جو لوٹ کر نہیں آتے


زندگی فرض ہے تو گزار رہا ہوں
نفل ہوتی تو قضا کر دیتا


اے زندگی اگر مانو تو ایک بات کہوں؟؟؟
مجھے چھوڑ دے یاں موت سے مل جا


خاموش سا شہر ہے اور کفتگو کی آرزو
ہم سی سے کریں بات کوئی بولتا ہی نہیں


جو اُس کی چاہ میں گزری وہ زندگی تھی میری
پھر اُس کے بعد گزارہ ہے زندگی نے مجھے


آنسوں سے عقیدت یوں ہی تو نہیں مجھ کو
یہی ساتھ نبھاتے ہیں جب کوئی نہیں ہوتا


یادوں کا بندھن توڑنا اتنا آسان نہیں ہے
کچھ لوگ دلوں میں بس جاتے ہیں لہو کی طرح


ایک حد تک محبت ہے پُر لطف صاحب
اُس حد کے بعد بے حد اذیت ہے


اُس نے کبھی کی ہی نہیں ہو گی
نام جس نے محبت کا گناہ رکھا ہے


تم نے اپنا سمجھ کر اک بار تو مانگی ہوتی جاں
جاں کی قسم کیا جاں ہمیں جاں سے پیاری تھی


ہم ناداں تھے جو اُس کو اپنی ہم سفر سمجھ بیٹھے
وہ چلتی تو میرے ساتھ تھی پر کسی اور کی تلاش میں


اگر چُپ چاپ تم دیکھو تو دم آرام سے نکلے
ادھر میں ہچکی لیتا ہوں اُدھر تو رونے لگتی ہو


باتوں کے جواب میں اک مختصر سی ہاں
لگتا ہے میری ذات سے اُکتا گئی ہے وہ


چلو آﺅ بتاﺅں تمہیں نشانی اُداس لوگوں کی
کبھی غور تو کرنا یہ مسکراتے بہت ہیں


میرے سجدوں میں کوئی کمی تو نہیں تھی اے میرے خدا
کیا مجھ سے بھی بڑھ کر کسی نے مانگا تھا اُسے


اگر میں یہ کہوں کہ تم بن نامکمل ہوں
تو کیا تکمیل ممکن ہے؟؟؟


آج بھی میں اکیلا ہوں اپنے کل کی طرح
اے محبت تجھے کس چیز کا غصّہ ہے مجھ پر؟؟؟


لگا کر پھول ہونٹوں کو کہا اُس نے یہ چپکے سے
اگر کوئی پاس نہ ہوتا تو تم اِس کی جگہ ہوتے


اے موت خفاہ کیوں ہے مجھ سے؟؟؟
تیری خاطر تو ساری زندگی میں زندگی کو نہیں چاہا


رو رو کر ڈھنڈا کرو گے میرے خلوص کو
چلا جاﺅں گا میں اک دن کسی خوبصورت کفن کا نصیب بن کر


دل لگ جانے سے بہتر تھا
آگ لگ جاتی اس دل کو


کسی کو چاہنے کی تمنا ہمیں لے ڈوبی
سمیٹنے کی آرزو میں خود بکھرتے جلے گئے


کاش آنسوں کے ساتھ یادیں بھی بہہ جاتی
تو ایک ہی دن تسلی سے بیٹھ کر رو لیتے


دم توڑ جاتی ہے ہر شکایت لبوں پہ آ کر
جب معصومیت سے وہ کہتی ہے میں نے ِکیا کیا ہے؟؟؟


کوچہءمحبوب میں ہو گا کہیں مصروفِ طواف
دل اگر سینے میں ہوتا تو دھڑکتا ہوتا


بہت روکا تھا تجھے کہ نہ کر اتنی محبت کسی سے
اے دل اب درد سہا نہیں جاتا تو موت کیوں مانگتا ہے 

urdu poetry 901 to 1000

انتہاءیادِ یار اور کثرتِ غمِ دوراں
ایک دل ہے بچارہ کہاں کہاں تڑپے


کبھی تقدیر کا ماتم کبھی محبوب سے شکوہ
اے منزلِ محبت تیرے ہر موڑ پہ رونا آیا


آج افسوس ہو رہا ہے حالِ زندگی پر
کاش حد سے زیادہ محبت نہ کی ہوتی


کل کسی اور نے خرید لیا تو گلہ نہ کرنا
اسی لیے سب سے پہلے تیرے شہر میں آئے ہیں


جی رہی ہو نہ تم اچھی بات ہے
نام تک نہ لینا اب محبت کا


ہر بار مجھ سے وہ نگاہیں پھیر لیتی ہے
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہے بنا کے آنکھیں اُس کی


بے رُخی کبھی کسی کو نہیں جیت سکتی
محبت سچی ہو تو جانے والے بھی لوٹ آتے ہیں


میں نازک ہوں پانی کے بلبلے کی طرح
ذرا سا ٹکراﺅ گے تو ڈھنڈتے رہ جاﺅ گے


دلِ معتبر سمجھ جا تیرے دن آخری ہیں
میں جب بھی گیا اُس کی گلی تجھے بیچ آﺅ گا


ادھورا سا میں محسوس کرتا ہوں خود کو
نہ جانے کون چھوڑ گیا ہے مجھے تعمیر کرتے کرتے


نہ جانے وہ کون سی مجبوریوں کی قیدی تھی
بے وفا ہوتی نہیں ہر چھوڑ کے جانے والی


آزاد کر دوں گا تجھ کو اپنی محبت کی قید سے
کرے جو ہم سے بہتر تمہاری قدر پہلے وہ شخص تو تلاش کر


عشق وہ واحد جنت ہے جس میں
حوریں خود ہی عذاب دیتی ہیں


موت سے پہلے بھی ہوتی ہے ایک موت
دیکھو ذرا تم جدا ہو کر مجھ سے


توں بھی بے وفا نکلی اوروں کی طرح
سوچا تھا تجھ سے تو زمانے کی بے وفائی کا گلہ کریں گے


کل میں نے عجیب قصّہ سنا ایک شخص کی موت کا
یادوں کے بوجھ تلے دب کر مر گیا


بیٹھا ہے کس خیال میں اے قلبِ نامراد
اُس گھر میں کون آئے گا جس میں دیا نہ ہو


کسی نالائق طالبِ علم کی طرح
دل نے تیرے نام کے رٹے لگا رکھے ہیں


ہم قسمت کی لکیروں کو چیر کر اُسے اپنا بنا لیتے
بس ایک بار اُس نے میری ہونے کا دعواءتو کیا ہوتا


اب دیکھتے ہیں کس کی جان جاتی ہے
میں نے اُس کی اُس نے میری قسم کھائی ہے


اُسے یہ کون بتلائے اُسے یہ کون سمجھائے
بہت خاموش رہنے سے تعلق ٹوٹ جاتے ہیں


زندکی گزر رہی ہے امتحانوں کے دور سے
ایک زخم بھرتا نہیں دوسرا تیار کر دیتے ہیں لوگ


تمام عمر سہاروں کی آس رہتی ہے
تمام عمر سہارے فریب دیتے ہیں


اُس کے بعد تمام عمر میخانوں میں گزرا دی میں نے
مگر نشہ اُس کے ہونٹوں جیسے کسی بوتل نے نہ دیا


خوشبو گئی نہ دل سے نہ یادوں سے بے روخی
ظالم کے سارے نقش بڑے پائدار تھے


اچھا ہوا کہ معلوم ہو گیا کہ آپ کی محبت اب محبت نہیں رہی
ورنہ ہم تو اپنا گھر تک چھوڑ رہے تھے تیرے دل میں رہنے کے لیے


قدر کرنے والوں کو جب نظروں سے گرا دیا جائے
تو اکثر وفا والوں کو بے وفائی کرنی پڑتی ہے


تجھے دیکھنے کو آ جاتے ہیں تیری گلیوں میں
ورنہ سارا شہر باقی ہے فقط آوارگی کے لیے


دلچسپ تھا اِس قدر کہ معلوم نہ ہو سکا
کیسے؟ کہاں؟ اور کب میرا بچپن چلا گیا


طلب موت کی کرنا گناہِ کبیرہ ہے
مرنے کا شوق ہے تو آﺅ تمہیں عشق کی تعلیم دوں


سیکھا دی بے وفائی بھی تمیں ظالم زمانے نے
کہ تم جو سیکھ لیتے ہو وہ مجھ پہ آزماتے ہو


لمحوں میں قید کر دے جو صدیوں کی چاہتیں
حسرت رہی کہ ایسا کوئی اپنا بھی یار ہو


بات مقدر پہ آ کے رہ گئی ورنہ
کوئی کسر تو نہ چھوڑی تھی اُسے چاہنے میں


سو جائیں گے یہ دنیا والے مگر نیند نہ آئے گی ان آنکھوں میں
کیوں کہ عشق وہ درد ہے جو موت سے پہلے سونے نہیں دیتا


سنو! اتنا قریب آﺅ کہ
سانسیں مشورہ کر لیں


مفت کے احسان نہ لینا یارو
دل ابھی اور بھی سستے ہوں گے


تم لوٹ کے آﺅ تو شاید کوئی بات بنے
ورنہ طبیبوں کا تو انکار ہی ہے


وہ اچھا ہے تو بہتر بُرا ہے تو قبول
مزاجِ عشق میں عیب و ہنر نہیں دیکھے جاتے


کیسی نازک و دل فریب وہ گھڑی تھی رات کی
یار نے سینے سے لگا رکھا تھا اور پوچھا سوتے کیوں نہیں


رات ہے سناٹا ہے وہاں کوئی نہ ہو گا
اُن کے درودیوار چلو چوم کے آتے ہیں


سنو! میرے کچھ غم اُدھار رکھ لو
بہت دن ہو گئے سویا نہیں ہوں میں


اُس جیسا ہونے کو بہت جی چاہتا ہے
کیا کروں؟ ہو جاﺅں پھر بے وفا؟


اور تو کچھ نہیں چاہیے مجھے تجھ سے اے زندگی
بس ایک وہ شخص لوٹا دے جو مجھے تجھ سے بھی پیارا ہے


مت دیکھا کرو جاگتی آنکھوں سے خواب
اگر چاہنے سے سب کچھ ملتا تو آج تم ہمارے ہوتے


نہ جلاﺅ نہ دفناﺅ سرعام سڑک پہ پھینک دہ
یہ عشق سبھی کا مجرم تھا ہر آتا جاتا بدلہ لے


ہوں طبیت سے بہت مجبور
ورنہ دل لگانا ثواب تھوڑی ہے


تسلی سی ذرا ہو جائے گی فقط اتنا تو بتا دو
تجھے بھی ہچکیاں آتی ہے جب میں یاد کرتی ہوں


جرم میرا عشق تھا نہ
تو سزائے موت دیتی یہ تنہائی کیوں


سنا ہو گا میرا دل پتھر کا ہے
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اسے بھی توڑ گئے


برباد کرنے کے اور بھی طریقے تھے
نہ جانے تمہیں محبت کا ہی کیوں خیال آیا


کب دو گے نجات ہمیں رات کی تنہائی سے
اے عشق معاف بھی کر میری عمر ہی کیا ہے


اے عشق توں نے تو رولا کے رکھ دیا
پوچھ میری ماں سے کتنا لاڈلہ تھا میں


بہت شوق ہے نہ تجھے بحث کا
آ بیٹھ، بتا وفا کیا ہے؟؟؟


سو ٹکڑے کیے اُس نے میرے دل کے
پھر خود ہی رو پڑی ہر ٹکڑے پہ اپنا نام دیکھ کر


اس سے بڑھ کر کیا سزا تھی جو وہ دیتی مجھ کو
کر گئی مجھے تنہا مگر اپنا بنانے کے بعد


مجھ کو ہیر رانجھے کی کہانیاں نہ سنا اے عشق
سیدھا سیدھا بول کہ میری جان چاہیے


لوگ جو بیچتے پھرتے ہیں مہنگے داموں
ملے جو مفت بھی تو میری توبہ ہے عشق سے


بڑا ہی عجیب قصّہ ہے نہ کہ میرے ہی دل نے مجھے
اپنے مفاد کی خاطر مجھے برباد کر ڈالا


وہ میری غزل کو پڑھ کے پہلو بدل کے بولے
کوئی قلم چھینے اِس سے یہ تو جان لے چلا ہے


کر گیا نہ عشق برباد
اور گیت گاﺅ محبت کے


کمال کا حوصلہ دیا ہے ربّ نے ہم انسانوں کو
واقف ہم اگلے پل سے نہیں اور وعدے زندگی بھر کے کرتے ہیں


یہ میری تلاش کا جرم ہے یا میری وفا کا قصور
جس دل کو جتنا بھی قریب لاﺅ وہ اتنا ہی بے وفا نکلتا ہے


تجھے خراجِ محبت ادا کروں گا ضرور
ذرا میں یاد تو کر لوں کوئی وفا تیری


کوئی ہنر کوئی رشوت کوئی طریقہ تو بتاﺅ؟؟؟
کہ دل بھی نہ ٹوٹے وہ ملے بھی نہ اور چین بھی آ جائے


وفا کا نام سنا تھا پرانے لوگوں سے
ہمارے عہد میں تو یہ حادثہ ہوا ہی نہیں


کیا پھر سے نہیں ہو سکتا کہ ہم جان مانگیں
اور تم لگا کہ گلے سے کہو اور کچھ؟


ماضی کے چار دنوں نے چھین لی میری ہنسی
اب حال میں، فِل حال میرا حال نہ پوچھ


بہت ڈر لگتا ہے مجھے ان لوگوں سے
جو دل میں رہ کر ہی دل پہ وار کرتے ہیں


اُس سے بچھڑیں گے تو مر جائیں گے
جان لیوا خوف تھا ہوا کچھ بھی نہیں


دل میں ہوتی تو بھلا نہ پاتے تمہیں
ذہن سے تو اکثر باتیں نکل ہی جاتی ہیں


بہت نظر انداز کرتے ہو تم مجھے
انہی نظروں سے ڈھونڈو گے جب ہم نہ ہوں گے


کمبخت مانتا ہی نہیں دل اُسے بھولانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاﺅں پڑ جاتا ہے


ہماری تو وفا بھی تمہیں گوارہ نہیں
کسی بے وفا سے نباﺅ گی تو بہت یاد آﺅں گا


اُس کی نظروں میں میری تباہی کے واسطے
اتنا خلوص تھا کے شکایت نہ کر سکے


ستارے کچھ بتاتے ہیں نتیجے کچھ نکلتے ہیں
بڑی حیرت میں ہیں میری ہتھیلی دیکھنے والے


محبت عام سا اک واقعہ تھا
ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے


دنیا تو وفاﺅں کا صلہ دے چکی مجھے
تو بھی میرا سلوک میرے منہ پہ مار دے


آج تو اندازِ بیان ہی کچھ اور تھا
مذاق مذاق میں میری حیثیت بتا دی اُس نے


سنا ہے محبت کا شوق نہیں تمہیں
مگر برباد کمال کا کر لیتے ہو


شک تھا اُس کو کہ رات کو میں کہیں بوسہ نہ لے لوں
گالوں پہ رکھ کے سوئی کلائی اور ہونٹوں کو کھلا ہی چھوڑ دیا


تم بہت دلنشیں تھی، پر جب سے
ہوئی ہو کسی کی وللّہ زہر لگتی ہو


کیا پھر سے نہیں ہو سکتا کہ ہم جان مانگیں
اور تم لگا کر گلے سے کہو اور کچھ؟؟؟


کیا خوب تھا اُس کا اندازِ قتل بھی
زہر دیا مجھ کو وہ بھی ہونٹوں پہ لگا کر


یاروں! اک مشورہ تو دو؟؟؟
محبت کا نام بدل کر موت نہ رکھ دیں؟


آغازِ عشق تو خوب تھا انجام کا کیا کہوں
پہلے تو دلگی تھی اب دل کو جا لگی


کرتا ہوں اِن کا ادب رکھتا ہوں انہیں سینے سے لگا کر
یہ درد یہ تنہائیاں تحفے ہیں کسی کے


میں تو آوارہ ہوں بدنام ہوں زمانے میں مگر!!!
جو لوگ مقدس ہے وہ وفا کیوں نہیں کرتے؟؟


بِک رہا تھا بازارِ محبت میں میری عزت کا لہو
مُڑ کر جو دیکھا تو میرا یار ہی خریدار نکلا


تیری محبت سے لے کر تیرے الوداع کہنے تک
میں نے صرف تمہیں چاہا تجھ سے تو کچھ نہیں چاہا


اب کے بار اے کاش ایسا ہو جائے
دسمبر بھی گزر جائے اور میں بھی


بے نشاں منزلوں کے سفر پر نکلو گے تو جانوں گے
دلوں کے مسافر کیوں راتوں کو سونا بھول جاتے ہیں


اُس نے پھر سے سلام بھیجا ہے
لگتا ہے پھر کسی سے بچھڑ گئی ہے وہ


سنا ہے موت برحق ہے
تو اِسے کہو عشق سے پہلے آ جائے


اُس نے بھلا دیا تو شکوہ نہ کر اے دل
یاروں کو تو بڑے اختیار ہوتے ہیں


خیالِ یار میں نیند کا تصور کیسا
آنکھ لگتی ہی نہیں آنکھ لڑی ہے جب سے


کیا بات ہے جو کھوئے کھوئے سے رہتے ہو
کہیں لفظ محبت سے محبت تو نہیں کر بیٹھے؟؟؟


لگتا ہے اِس بار محبت ہو ہی جائے گی
میں نے خواب میں خود کو مرتے ہوئے دیکھا ہے


اس عشق سے بچ کے رہنا بہت بُری بلا ہے
اس ظالم کے ستائے ہوئے نمازی بھی ملے ہیں مجھے میخانوں میں


آج اتنی جام پلا دے کہ جٹ کی آنکھیں ہی بند ہو جائیں
سنا ہے آنکھیں بند ہو جائیں تو دوست بھی کبھی کبھی یاد کر لیتے ہیں


اے عشق ذرا اک بات تو بتا؟؟؟
کیا سب کو آزماتے ہو یا میرے ساتھ دشمنی ہے


ہم نے سوچا تھا کہ تمہیں اک منفرد پھول دیں گے
پر توں جُدا ہی ایسی موسم میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ تک خالی تھے


برسوں سجاتے رہے ہم کردار کو
کچھ لوگ بازی لے گئے صورت سوار کر


کسی کے بچھڑنے سے انسان مر نہیں جاتا
بس ذرا جینے کے انداز بدل جاتے ہیں


جاتے جاتے اُس نے ہمیں ایک جملہ کہہ کر رولا دیا
جب غم برداشت نہیں کر سکتے تو محبت کیوں کرتے ہو


مختصر یہ کہ اب تیرے بغیر
زندگی کی سمجھ نہیں آتی


پہلے اُسے کی تھی جستجو دل کو
آج میں اپنی تلاش میں ہوں


دیکھتا ہوں تصویرِ یار تو آتا ہے رشک
ہر بات لاجواب تھی اگر بے وفا نہ ہوتی


غمِ زندگی سے فرصت ہی نہ ملی ورنہ
ہم اگر کسی کے ہیں تو بس تمہارے ہیں


ادھوری محبت ملی تو نیندیں بھی روٹھ گئی
گُم نام زندگی تھی تو کتنے سکون سے سویا کرتے تھے


تیری بے روخی کا ایک دن انجام یہی ہو گا
آخر بھلا ہی دیں گے تجھے یاد کرتے کرتے


تو نے تو کہا تھا ہر شام تیرے ساتھ گزاروں گی
تم بدل گئی ہو یاں تمہارے شہر میں شام نہیں ہوتی


ہر رات کا اندھیرا ہونے سے پہلے حال پوچھ لیا کر
ایسا نہ ہو کہ ہم مٹی میں سوئے رہیں اور تم اندھیروں میں ڈھنڈتی رہو


بے بسی سے اُس کی آنکھوں میں بھی آ گئے آنسو
جب وہ دینے لگی مجھے مشورہ جدائی کا


سارے وہم تیرے اپنے ہیں
ہم کہاں تم کو بھول پائیں گے


اک جہنم ہے میرا سینا بھی
آرزو کب کی دب گئی ہو گی


اُسے کہنا تیری بے وفائی نے میرا یہ حال کر دیا ہے
میں خود تو نہیں روتا لوگ مجھے دیکھ کے روتے ہیں


وہ ہم کو پتھر اور خود کو پھول کہا کرتی تھی
اُسے کیا پتہ پتھر تو پتھر ہی رہتے ہیں پھول ہی مرجھایا کرتے ہیں


مجھے روتا دیکھ کر وہ یہ کہہ کر چلی گئی
روتا تو ہر کوئی ہے کیا میں اب سب کی ہو جاﺅں؟؟؟


مصروفیت میں آتی ہے بے حد تیری یاد
فرصت میں تو تیری یاد سے فرصت نہیں ملتی


ہو جائے تو ختم نہیں ہوتا
یہ عشق بھی غریب کا قرض ہو جیسے


وہ اک شخص بہت عزیز ہے مجھے
جو چُپ کے بیٹھا ہے مجھ میں میری جاں کی طرح


کس نے کہا یہ ممکن ہے
میں رہوں مجھ میں تو نہ رہے


اک عمر سے عادت ہے تیرے شام و سہر کی
اب کون تیری یاد کے معمول کو بدلے


رات بھر سونے نہیں دیتا
عشق بھی دودھ پیتا بچہ ہو جیسے


جان جی ہر کام کا ایک وقت ہے
دلِ بے چین کو قرار آ ہی جائے گا


فاصلے بڑھ گئے ہیں صاحب!
اور کمبخت محبت بھی


اُس کی آنکھیں تو سمندر سے بھی گہری تھی
تیرنا تو آتا تھا مگر ڈوبنا اچھا لگا


اک یہ خوف کہ کوئی زخم نہ دیکھ لے دل کا
اور اک حسرت کہ کاش کوئی دیکھنے والا ہوتا


زخم خرید لیے ہیں بازارِ درد سے
دل ضد کر رہا تھا مجھے محبت چاہیے


کسی کے دل کو جوڑنے میں اتنا مگن تھا میں
ہوش تب آیا جب اپنے دل کے ٹکڑے دیکھے


ٹوٹے ہوئے شیشے کو کبھی دیکھا ہے تو نے
اُسی طرح تیری یاد میں بکھرے پڑے ہیں ہم


خواب میں بھی وہ اب نہیں آتی
نفرتیں ان دنوں عروج پے ہیں


چوما ہے اپنی آنکھوں کو رکھ رکھ کے آئینہ
جب بھی ہوئی ہے خواب میں زیارت جناب کی


لے آﺅ دامنِ یوسفؑ سے کچھ حُسن کی جھلک
ہماری بھی خواہش ہے کوئی چاہے ہمیں زلیخا کی طرح


توبہ وہ گیلے لب وہ آنکھیں وہ غصب کا کاجل
اُف تو ہی بتا یہ دل مرتا نہ تو اور کیا کرتا


محبت کر تو لی غالب ذرا سا حوصلہ رکھو
گھبرا گئے جدائی سے؟ ابھی تو رسوا بھی ہونا ہے


تمہاری یاد کے پیوند لگ گئے ورنہ
میرے وجود کی اُڑھ جاتی دجیاں ساری


یہ اُداس لمحے میری تنہائی کو اُس مقام پے لے جاتے ہیں
کہ مجھے تم، اک تم، پھر تم، اور بس تم ہی یاد آتی ہو


حاصلِ عشق کیا بتاﺅں تجھے
قُرب بویا تھا حجر کاٹا ہے


ایک تم کو اگر چورا لوں میں
یہ زمانہ غریب ہو جائے


میرے گھر کو لوگ آسیب ذدہ سمجھتے ہیں
کہتے ہیں شب کے پچھلے پہر آوازیں آتی ہیں کسی کے رونے کی


یہ جو خود شکستہ سے ہیں کہکے میرے دل کو لگتا ہے بوجھ سا
وہ جو اپنے آپ میں مست ہو مجھے اُس ہنسی کی تلاش ہے


ہم نے ہر دکھ کو محبت کی عنایت سمجھا
ہم کوئی تم تھے؟ کہ تم سے شکایت کرتے!!!


آﺅں گا میں یاد تجھ کو اک بار پھر سے
جب تیرے اپنے ہی فیصلے تجھے برباد کریں گے


اُسے تو کھو دیا لیکن اب نہ جانے کس کو کھونا ہے
لکیروں میں جدائی کی علامت اب بھی باقی ہے


تم نے بھی ہماری یاد کو دِیے کی طرح سمجھا ہے
رات گہری ہوئی تو جلا دیا صبح ہوئی تو بجھا دیا


لوگ سینے میں قید رکھتے ہیں
ہم نے سر پہ چڑھا رکھا ہے دل کو


اُس کا وعدہ بھی بڑا عجیب تھا کہ زندگی بھر ساتھ نبھاﺅنگی
میں نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ محبت کے ساتھ؟ یاں بے وفائی کے ساتھ؟


کیوں اُلجھتی ہو ان سوالوں میں
بے وفا تم نہیں تو ہم ہوں گے


عشق یونہی نہیں ہوا
بات اُس میں کوئی جدا سی تھی


اک محبت کا مشغلہ لے کر
زندگی خوب کی تباہ ہم نے


آج تفصیل نہیں بس اتنا سنو
قسم سے بہت یاد آتے ہو تم


نا اتنا یاد آﺅ کہ میں خود کو تم سمجھ بیٹھوں
مجھے احساس رہنے دو میری اپنی بھی ہستی ہے


ہوں طبیت سے بہت مجبور
ورنہ دل لگانا ثواب تھوڑی ہے


بڑے شوق سے مر جائیں گے مگر شرط یہ ہے
تم سامنے بیٹھ کے سانسوں کا تسلسل ٹوٹتا دیکھو


ہر بار تم کیوں مجھ کو غم دیتی رہتی ہو
میں مضبوط تو بہت ہوں پر پتھر تو نہیں


احساسِ محبت کے لیے بس اتنا ہی کافی ہے
تیرے بغیر بھی ہم تیرے ہی رہتے ہیں


مجھے احباب کی لمبی قطاروں سے نہیں مطلب
اگر تم دل سے میرے ہو تو بس اک تم ہی کافی ہو


کون میرے دل کی دیکھ بھال کرے
روز تھوڑا سا ٹوٹ جاتا ہے


زخم خرید لیے ہیں بازارِ درد سے
دل ضد کر رہا تھا مجھے محبت چاہیے


بڑی دلکش دعا دی کسی نے ہمیں جینے کی
صدا خوش رہو تم اپنی تنہائیوں کے ساتھ


تجھ میں اور مجھ میں فرق صرف اتنا ہے
تیرا کچھ کچھ ہوں میں اور میری سب کچھ ہے تو


کرو بڑے شوق سے محبت اے چاہنے والو
مگر سوچ لینا کسی کام کے رہو گے بچھڑنے کے بعد


ہمیں تو کب سے پتہ تھا کہ تو بے وفا ہے
تجھے چاہا اس لیے کہ شائد تیری فطرت بدل جائے


چلے آئے ہیں آنکھوں میں اُس کا عکس پا کر
یہ آنسو آج پھر کوئی تماشہ چاہتے ہیں


استادِ عشق سچ کہا تو نے بہت نالائق ہوں میں
مدت سے ایک ہی شخص کو یاد کر رہا ہوں


کہاں ڈھنڈتے ہو عشق کو تم اے بے خبر
یہ خود ہی ڈھونڈ لیتا ہے جسے برباد کرنا ہو


تیری حالت سے لگتا ہے تیرا اپنا تھا کوئی
اتنی سادگی سے برباد کوئی غیر نہیں کرتا


بے وفا لوگوں کی آنکھیں دیکھ کر ہی انہیں پہچان لیتا ہوں میں
آخر ہم نے بھی زندگی گزاری ہے اک بے وفا کے ساتھ


اُس کی گہری نیند کا منظر کتنا دلکش ہوتا ہے
تکیہ کہیں، زلفیں کہیں، اور وہ خود کہیں


منہ چھپا کر اب کیوں روتا ہے سینے میں
اے دل میری توں نے مانی کب تھی


قضا ہو گئے مجھ سے سجدے سارے
اے عشق سچ بتا کہیں توں کافر تو نہیں؟؟؟؟


پہلی ملاقات تھی اور ہم دونوں ہی بے بس
وہ زلفیں نہیں سنبھال پائی اور میں خود کو


میں نے علاجِ عشق جو پوچھا طبیب سے
دھیمے سے لہجے میں بولا! صبح دوپہر شام زہر پیا کر


خدا نے اُسے تیرے نصیب میں لکھا ہی نہیں
چھوڑ دے یاد کرنا اُسے خود کو بدنصیب کہہ کر


کہہ دو اُسے اگر جدائی عزیز ہے تو روٹھ جائے ہم سے
وہ جی سکتی ہے تو مر ہم بھی سکتے ہیں


موت بھی کم خوبصورت تو نہ ہو گی
جو بھی اس سے ملتا ہے زندگی چھوڑ جاتا ہے


عجیب مقام پہ آ پہنچا ہے قافلہ دل کا
زندگی ڈھونڈنے نکلے تھے موت سے بھی گئے


سنا ہے عشق سے تیرے بہت بنتی ہے
اک احسان کر اُس سے میرا قصور تو پوچھ


بھوکا اور پیاسہ رکھا کمسن دیوانے کو
اے عشق تیرا اندازِ ستم ہے یزیدوں جیسا


گلہ کیسا جو اُس نے توڑ ڈالا
میں خود بھی تنگ تھا اس دل کے ہاتھوں


قضا ہو گئے مجھ سے سجدے سارے
اے عشق سچ بتا کہیں تو کافر تو نہیں؟؟؟


سزا بن جاتی ہے گزرے ہوئے وقت کی یادیں
نہ جانے کیوں چھوڑ جانے کے لیے زندگی میں آتے ہیں لوگ


میں کسی کے دل کو جوڑنے میں اتنا مگن تھا
ہوش تب آیا جب اپنے دل کے ٹکڑے دیکھے


تیری یاد میں خود کو اس طرح جلا دیتے ہیں
آگ سے لکھتے ہیں تیرا نام اور آنسوں سے بجا دیتے ہیں


مچلتے رہتے ہیں ذہنوں میں وسوسوں کی طرح
حسین لوگ بھی وبالِ جان ہوتے ہیں


کتنی مشکل سے کٹ رہا ہے یہ دلکش سا منظر
بارش بھی ہو رہی ہے اور تم یاد بھی آ رہی ہو


میری تبایوں میں تیرا ہاتھ ہے مگر
میں سب سے کہہ دیتا ہوں مقدر کی بات ہے


کون پوچھتا ہے پنجرے میں بند پنچھیوں کو
یاد وہی آتے ہیں جو اُڑھ جاتے ہیں


سنو! تم عزم والے ہو بلا کا حوصلہ رکھتے ہو تمہیں کچھ بھی نہیں ہو گا
مگر سوچو! جیسے تم چھوڑ جاﺅ گے اُسے تو ٹھیک سے شاید بچھڑنا بھی نہیں آتا


واہ! میرے محبوب بڑی جلدی خیال آیا میرا
بس کرو چومنا اب اُٹھنے بھی دو جنازہ


سو بار کہہ میں نے انکار ہے الفت سے
ہر بار صدا آئی توں دل سے نہیں کہتا


تیری یادوں کی بارش جب بھی برستی ہے
میں بھیگتا ضرور ہوں مگر پلکوں کی حد تک


مٹی کا لباس اوڑھنے کی دھیر ہے مجھے
ہر شخص پھر ڈھنڈے گا آنکھوں میں نمی لے کر


آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھے محوِ گفتگو
باہوں میں آنے والے تھے کہ آنکھ کھل گئی


اب آئے ہو تو برس کر ہی جانا اے بادل
کہیں ہماری طرح تمہاری بھی حسرت باقی نہ رہ جائے


پھر وفائیں بھی کرو گی تو کوئی نہ پوچھے گا
یہ تیرے سارے ستم فقط میرے مر جانے تک ہیں


مجھے معلوم ہے کہ وہ میری کبھی نہیں ہو گی
بس ذرا شوق ہے اُس کی خاطر زندگی تباہ کرنے کا


اُسے کہو میرے زخموں کو ہوا مت دینا
یہ غریبوں کے دل ہیں انہیں درد بہت ہوتا ہے


کاش کہ تم موت ہوتی
یقیں تو ہوتا کہ ایک دن آﺅ گی

 

urdu poetry 801 to 900



انتہاءیادِ یار اور کثرتِ غمِ دوراں
ایک دل ہے بچارہ کہاں کہاں تڑپے

کبھی تقدیر کا ماتم کبھی محبوب سے شکوہ
اے منزلِ محبت تیرے ہر موڑ پہ رونا آیا

آج افسوس ہو رہا ہے حالِ زندگی پر
کاش حد سے زیادہ محبت نہ کی ہوتی

کل کسی اور نے خرید لیا تو گلہ نہ کرنا
اسی لیے سب سے پہلے تیرے شہر میں آئے ہیں

جی رہی ہو نہ تم اچھی بات ہے
نام تک نہ لینا اب محبت کا

ہر بار مجھ سے وہ نگاہیں پھیر لیتی ہے
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہے بنا کے آنکھیں اُس کی

بے رُخی کبھی کسی کو نہیں جیت سکتی
محبت سچی ہو تو جانے والے بھی لوٹ آتے ہیں

میں نازک ہوں پانی کے بلبلے کی طرح
ذرا سا ٹکراﺅ گے تو ڈھنڈتے رہ جاﺅ گے

دلِ معتبر سمجھ جا تیرے دن آخری ہیں
میں جب بھی گیا اُس کی گلی تجھے بیچ آﺅ گا

ادھورا سا میں محسوس کرتا ہوں خود کو
نہ جانے کون چھوڑ گیا ہے مجھے تعمیر کرتے کرتے

نہ جانے وہ کون سی مجبوریوں کی قیدی تھی
بے وفا ہوتی نہیں ہر چھوڑ کے جانے والی

آزاد کر دوں گا تجھ کو اپنی محبت کی قید سے
کرے جو ہم سے بہتر تمہاری قدر پہلے وہ شخص تو تلاش کر

عشق وہ واحد جنت ہے جس میں
حوریں خود ہی عذاب دیتی ہیں

موت سے پہلے بھی ہوتی ہے ایک موت
دیکھو ذرا تم جدا ہو کر مجھ سے

توں بھی بے وفا نکلی اوروں کی طرح
سوچا تھا تجھ سے تو زمانے کی بے وفائی کا گلہ کریں گے

کل میں نے عجیب قصّہ سنا ایک شخص کی موت کا
یادوں کے بوجھ تلے دب کر مر گیا

بیٹھا ہے کس خیال میں اے قلبِ نامراد
اُس گھر میں کون آئے گا جس میں دیا نہ ہو

کسی نالائق طالبِ علم کی طرح
دل نے تیرے نام کے رٹے لگا رکھے ہیں

ہم قسمت کی لکیروں کو چیر کر اُسے اپنا بنا لیتے
بس ایک بار اُس نے میری ہونے کا دعواءتو کیا ہوتا

اب دیکھتے ہیں کس کی جان جاتی ہے
میں نے اُس کی اُس نے میری قسم کھائی ہے

اُسے یہ کون بتلائے اُسے یہ کون سمجھائے
بہت خاموش رہنے سے تعلق ٹوٹ جاتے ہیں

زندکی گزر رہی ہے امتحانوں کے دور سے
ایک زخم بھرتا نہیں دوسرا تیار کر دیتے ہیں لوگ

تمام عمر سہاروں کی آس رہتی ہے
تمام عمر سہارے فریب دیتے ہیں

اُس کے بعد تمام عمر میخانوں میں گزرا دی میں نے
مگر نشہ اُس کے ہونٹوں جیسے کسی بوتل نے نہ دیا

خوشبو گئی نہ دل سے نہ یادوں سے بے روخی
ظالم کے سارے نقش بڑے پائدار تھے

اچھا ہوا کہ معلوم ہو گیا کہ آپ کی محبت اب محبت نہیں رہی
ورنہ ہم تو اپنا گھر تک چھوڑ رہے تھے تیرے دل میں رہنے کے لیے

قدر کرنے والوں کو جب نظروں سے گرا دیا جائے
تو اکثر وفا والوں کو بے وفائی کرنی پڑتی ہے

تجھے دیکھنے کو آ جاتے ہیں تیری گلیوں میں
ورنہ سارا شہر باقی ہے فقط آوارگی کے لیے

دلچسپ تھا اِس قدر کہ معلوم نہ ہو سکا
کیسے؟ کہاں؟ اور کب میرا بچپن چلا گیا

طلب موت کی کرنا گناہِ کبیرہ ہے
مرنے کا شوق ہے تو آﺅ تمہیں عشق کی تعلیم دوں

سیکھا دی بے وفائی بھی تمیں ظالم زمانے نے
کہ تم جو سیکھ لیتے ہو وہ مجھ پہ آزماتے ہو

لمحوں میں قید کر دے جو صدیوں کی چاہتیں
حسرت رہی کہ ایسا کوئی اپنا بھی یار ہو

بات مقدر پہ آ کے رہ گئی ورنہ
کوئی کسر تو نہ چھوڑی تھی اُسے چاہنے میں

سو جائیں گے یہ دنیا والے مگر نیند نہ آئے گی ان آنکھوں میں
کیوں کہ عشق وہ درد ہے جو موت سے پہلے سونے نہیں دیتا

سنو! اتنا قریب آﺅ کہ
سانسیں مشورہ کر لیں

مفت کے احسان نہ لینا یارو
دل ابھی اور بھی سستے ہوں گے

تم لوٹ کے آﺅ تو شاید کوئی بات بنے
ورنہ طبیبوں کا تو انکار ہی ہے

وہ اچھا ہے تو بہتر بُرا ہے تو قبول
مزاجِ عشق میں عیب و ہنر نہیں دیکھے جاتے

کیسی نازک و دل فریب وہ گھڑی تھی رات کی
یار نے سینے سے لگا رکھا تھا اور پوچھا سوتے کیوں نہیں

رات ہے سناٹا ہے وہاں کوئی نہ ہو گا
اُن کے درودیوار چلو چوم کے آتے ہیں

سنو! میرے کچھ غم اُدھار رکھ لو
بہت دن ہو گئے سویا نہیں ہوں میں

اُس جیسا ہونے کو بہت جی چاہتا ہے
کیا کروں؟ ہو جاﺅں پھر بے وفا؟

اور تو کچھ نہیں چاہیے مجھے تجھ سے اے زندگی
بس ایک وہ شخص لوٹا دے جو مجھے تجھ سے بھی پیارا ہے

مت دیکھا کرو جاگتی آنکھوں سے خواب
اگر چاہنے سے سب کچھ ملتا تو آج تم ہمارے ہوتے

نہ جلاﺅ نہ دفناﺅ سرعام سڑک پہ پھینک دہ
یہ عشق سبھی کا مجرم تھا ہر آتا جاتا بدلہ لے

ہوں طبیت سے بہت مجبور
ورنہ دل لگانا ثواب تھوڑی ہے

تسلی سی ذرا ہو جائے گی فقط اتنا تو بتا دو
تجھے بھی ہچکیاں آتی ہے جب میں یاد کرتی ہوں

جرم میرا عشق تھا نہ
تو سزائے موت دیتی یہ تنہائی کیوں

سنا ہو گا میرا دل پتھر کا ہے
لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اسے بھی توڑ گئے

برباد کرنے کے اور بھی طریقے تھے
نہ جانے تمہیں محبت کا ہی کیوں خیال آیا

کب دو گے نجات ہمیں رات کی تنہائی سے
اے عشق معاف بھی کر میری عمر ہی کیا ہے

اے عشق توں نے تو رولا کے رکھ دیا
پوچھ میری ماں سے کتنا لاڈلہ تھا میں

بہت شوق ہے نہ تجھے بحث کا
آ بیٹھ، بتا وفا کیا ہے؟؟؟

سو ٹکڑے کیے اُس نے میرے دل کے
پھر خود ہی رو پڑی ہر ٹکڑے پہ اپنا نام دیکھ کر

اس سے بڑھ کر کیا سزا تھی جو وہ دیتی مجھ کو
کر گئی مجھے تنہا مگر اپنا بنانے کے بعد

مجھ کو ہیر رانجھے کی کہانیاں نہ سنا اے عشق
سیدھا سیدھا بول کہ میری جان چاہیے

لوگ جو بیچتے پھرتے ہیں مہنگے داموں
ملے جو مفت بھی تو میری توبہ ہے عشق سے

بڑا ہی عجیب قصّہ ہے نہ کہ میرے ہی دل نے مجھے
اپنے مفاد کی خاطر مجھے برباد کر ڈالا

وہ میری غزل کو پڑھ کے پہلو بدل کے بولے
کوئی قلم چھینے اِس سے یہ تو جان لے چلا ہے

کر گیا نہ عشق برباد
اور گیت گاﺅ محبت کے

کمال کا حوصلہ دیا ہے ربّ نے ہم انسانوں کو
واقف ہم اگلے پل سے نہیں اور وعدے زندگی بھر کے کرتے ہیں

یہ میری تلاش کا جرم ہے یا میری وفا کا قصور
جس دل کو جتنا بھی قریب لاﺅ وہ اتنا ہی بے وفا نکلتا ہے

تجھے خراجِ محبت ادا کروں گا ضرور
ذرا میں یاد تو کر لوں کوئی وفا تیری

کوئی ہنر کوئی رشوت کوئی طریقہ تو بتاﺅ؟؟؟
کہ دل بھی نہ ٹوٹے وہ ملے بھی نہ اور چین بھی آ جائے

وفا کا نام سنا تھا پرانے لوگوں سے
ہمارے عہد میں تو یہ حادثہ ہوا ہی نہیں

کیا پھر سے نہی  ہو سکتا کہ ہم جان مانگیں
اور تم لگا کہ گلے سے کہو اور کچھ؟

ماضی کے چار دنوں نے چھین لی میری ہنسی
اب حال میں، فِل حال میرا حال نہ پوچھ

بہت ڈر لگتا ہے مجھے ان لوگوں سے
جو دل میں رہ کر ہی دل پہ وار کرتے ہیں

اُس سے بچھڑیں گے تو مر جائیں گے
جان لیوا خوف تھا ہوا کچھ بھی نہیں

دل میں ہوتی تو بھلا نہ پاتے تمہیں
ذہن سے تو اکثر باتیں نکل ہی جاتی ہیں

بہت نظر انداز کرتے ہو تم مجھے
انہی نظروں سے ڈھونڈو گے جب ہم نہ ہوں گے

کمبخت مانتا ہی نہیں دل اُسے بھولانے کو
میں ہاتھ جوڑتا ہوں تو وہ پاﺅں پڑ جاتا ہے

ہماری تو وفا بھی تمہیں گوارہ نہیں
کسی بے وفا سے نباﺅ گی تو بہت یاد آﺅں گا

اُس کی نظروں میں میری تباہی کے واسطے
اتنا خلوص تھا کے شکایت نہ کر سکے

ستارے کچھ بتاتے ہیں نتیجے کچھ نکلتے ہیں
بڑی حیرت میں ہیں میری ہتھیلی دیکھنے والے

محبت عام سا اک واقعہ تھا
ہمارے ساتھ پیش آنے سے پہلے

دنیا تو وفاﺅں کا صلہ دے چکی مجھے
تو بھی میرا سلوک میرے منہ پہ مار دے

آج تو اندازِ بیان ہی کچھ اور تھا
مذاق مذاق میں میری حیثیت بتا دی اُس نے

سنا ہے محبت کا شوق نہیں تمہیں
مگر برباد کمال کا کر لیتے ہو

شک تھا اُس کو کہ رات کو میں کہیں بوسہ نہ لے لوں
گالوں پہ رکھ کے سوئی کلائی اور ہونٹوں کو کھلا ہی چھوڑ دیا

تم بہت دلنشیں تھی، پر جب سے
ہوئی ہو کسی کی وللّہ زہر لگتی ہو

کیا پھر سے نہیں ہو سکتا کہ ہم جان مانگیں
اور تم لگا کر گلے سے کہو اور کچھ؟؟؟

کیا خوب تھا اُس کا اندازِ قتل بھی
زہر دیا مجھ کو وہ بھی ہونٹوں پہ لگا کر

یاروں! اک مشورہ تو دو؟؟؟
محبت کا نام بدل کر موت نہ رکھ دیں؟

آغازِ عشق تو خوب تھا انجام کا کیا کہوں
پہلے تو دلگی تھی اب دل کو جا لگی

کرتا ہوں اِن کا ادب رکھتا ہوں انہیں سینے سے لگا کر
یہ درد یہ تنہائیاں تحفے ہیں کسی کے

میں تو آوارہ ہوں بدنام ہوں زمانے میں مگر!!!
جو لوگ مقدس ہے وہ وفا کیوں نہیں کرتے؟؟

بِک رہا تھا بازارِ محبت میں میری عزت کا لہو
مُڑ کر جو دیکھا تو میرا یار ہی خریدار نکلا

تیری محبت سے لے کر تیرے الوداع کہنے تک
میں نے صرف تمہیں چاہا تجھ سے تو کچھ نہیں چاہا

اب کے بار اے کاش ایسا ہو جائے
دسمبر بھی گزر جائے اور میں بھی

بے نشاں منزلوں کے سفر پر نکلو گے تو جانوں گے
دلوں کے مسافر کیوں راتوں کو سونا بھول جاتے ہیں

اُس نے پھر سے سلام بھیجا ہے
لگتا ہے پھر کسی سے بچھڑ گئی ہے وہ

سنا ہے موت برحق ہے
تو اِسے کہو عشق سے پہلے آ جائے

اُس نے بھلا دیا تو شکوہ نہ کر اے دل
یاروں کو تو بڑے اختیار ہوتے ہیں

خیالِ یار میں نیند کا تصور کیسا
آنکھ لگتی ہی نہیں آنکھ لڑی ہے جب سے

کیا بات ہے جو کھوئے کھوئے سے رہتے ہو
کہیں لفظ محبت سے محبت تو نہیں کر بیٹھے؟؟؟

لگتا ہے اِس بار محبت ہو ہی جائے گی
میں نے خواب میں خود کو مرتے ہوئے دیکھا ہے

اس عشق سے بچ کے رہنا بہت بُری بلا ہے
اس ظالم کے ستائے ہوئے نمازی بھی ملے ہیں مجھے میخانوں میں

آج اتنی جام پلا دے کہ جٹ کی آنکھیں ہی بند ہو جائیں
سنا ہے آنکھیں بند ہو جائیں تو دوست بھی کبھی کبھی یاد کر لیتے ہیں

اے عشق ذرا اک بات تو بتا؟؟؟
کیا سب کو آزماتے ہو یا میرے ساتھ دشمنی ہے 

urdu poetry 701 to 800


فقط رہ جاتے ہیں محبت کے بھرم
بھلا عمر بھر کے لیے بھی کوئی بنا ہے کسی کا؟


نہ چھیڑ قصہ وہ اُلفت کا بڑی لمبی کہانی ہے
میں زندگی سے نہیں ہارا بس کسی پہ اعتبار کیا تھا


کتنی معصوم خواہش ہے اس دیوانی لڑکی کی
جو چاہتی ہے کہ محبت بھی کرے اور خوش بھی رہے


نہ نہ تم عشق نہ کرنا
مرنا ہے نہ؟ تو زہر بہتر ہے


تمہیں معلوم بھی تھا کہ میں تنہا رہ نہیں سکتا
میری عادت بدلنے تک تو میرے ساتھ رہ جاتی


محبت کو ہمیشہ مجبوریاں ہی لے ڈوبتی ہیں
ورنہ کبھی کوئی خوشی سے بے وفا نہیں ہوتا


اب موت سے کہو ہم سے ناراضگی ختم کر دے
وہ بہت بدل گئی ہے جس کے لیے ہم جیا کرتے تھے


کس کی جرات ہے کہ میرے ہوش میں لُوٹے مجھ کو
وہ تو دنیا تیری باتوں میں لگا لیتی ہے


تیری مجبوریاں درست مگر!
تیرا وعدہ تھا یاد رکھنے کا


ہم نے سوچا تھا کہ بتائیں گے سب دکھ درد اُس کو
اُس نے تو اتنا بھی نہ پوچھا کہ خاموش کیوں ہو


میرے مرنے پر سب خوش ہوں گے
بس اک تنہائی رﺅے گی کہ میرا ہمسفر چلا گیا


پھر کبھی محبت نہیں ہو سکتی
وہ ایک تھی اور میرا دل بھی ایک


میں نے اُس سے بس اتنا ہی پوچھا تھا کہ اک پل میں کسی کی جان کیسے نکل جاتی ہے؟
اُس نے چلتے چلتے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کہا یوں


زمانے کی نگاہوں سے دلوں کے راز پوشیدہ ہیں
خلوصِ دل سے ربّ جانے محبت کون کرتا ہے


ہم تو ہنستے ہیں دوسروں کو ہنسانے کی خاطر
ورنہ دل پہ زخم اتنے ہیں کہ رویا بھی نہیں جاتا


خودکشی حرام ہے دوست
میری مانو! عشق کر لو


برسوں بعد ملی تو پوچھنے لگی کہ تم کون ہو؟
بچھڑتے وقت جس نے کہا تھا کہ تم بہت یاد آﺅ گے


میں نے قسمت کی لکیروں پر یقین کرنا چھوڑ دیا ہے
جو دلوں میں بس جائیں وہ لکیروں میں نہیں ہوتے


صرف اک بار آﺅ میرے دل میں اپنی محبت دیکھنے
پھر لوٹنے کا ارادہ ہم تم پر چھوڑ دیں گے


انہی باتوں سے اکثر بچھڑ جایا کرتے ہیں لوگ
اُسے کہنا اتنی من مانیاں اچھی نہیں ہوتیں


بہت بُرا ہے مگر پھر بھی تم سے اچھا ہے
کہ دل کا درد جو ساتھ ساتھ تو رہتا ہے


مدتوں بعد اُسے خوش دیکھ کر احساس ہوا
کاش کہ ہم نے اُسے بہت پہلے چھوڑ دیا ہوتا


اتنا نہ تڑپاﺅ کہ کوئی گناہ کر بیٹھوں
پھر نہ کہنا کیوں برباد کیا خود کو میری خاطر


بات اگر شراب تک ہوتی تو نہ آتے تیرے میخانے میں
یہ جو تیری نظروں کا جام ہے کم بخت کہیں اور نہیں ملتا


سبب میری اُداسی کا وہ پوچھے تو اُسے کہنا
تم یاد آتی ہو میرے صبر کی حد سے کہیں بڑھ کر


اب یہ ہے میرے گھر کا اکیلا پن
سورج نہ ہو تو مجھ کو جگاتا نہیں کوئی


وفاتِ عشق کا اعلان ہے کچھ مشورہ ہی دو
یہ ہندو تھا نہ مسلم تھا، جلا دیں یاں دفنا دیں؟


محفل لگی تھی بدعاﺅں کی میں نے بھی دل سے دعا کی
اُسے عشق ہو اُسے عشق ہو اُسے عشق ہو


میری زندگی کی ساری جمع پونجی لے گیا
یہ عشق جہاں ملے بتانا مجھ کو


لگتا ہے کہ جیسے تنگ ہے کوئی میرے وجود سے
اے زندگی تجھے بھی اجازت ہے جا چھوڑ جا مجھ کو


ہم اپنی جان تک اُس پہ لٹا دیں گے
کوئی ہماری طرح ہم سے محبت تو کرے


نہ جانے اِس ضد کا نتیجہ کیا ہو گا
سمجھتا دل بھی نہیں، میں بھی نہیں وہ بھی نہیں


اُس کے نرم ہاتھوں سے پھسل جاتی ہیں چیزیں اکثر
میرا دل بھی لگا ہے ہاتھ اُس کے خدا خیر کرے


اے زندگی ختم کر اب یہ یادوں کے سلسلے
میں تھک گیا ہوں خود کو تسلیاں دے دے کر


بہت محدود سا حلقہءاحباب ہے میرا
فقط تنہایاں، رُسوائیاں، نادانیاں اور میں


اُسے خود سے دور کرنا چاہا تو کس قدر دور کیا
وہ دل سے نکل کر میری روح میں سما گئی


خود کو کھونے کا بھی پتہ نہ چلا
اُس کو پانے کی انتہا میں


فطرت سوچ اور حالات میں تضادم ہے ورنہ
انسان کیسا بھی ہو دل کا بُرا نہیں ہوتا


سونا ہو گا تم نے کسی سے کہ درد کی ایک حد بھی ہوتی ہے
ملو ہم سے کہ ہم اُس حد کے اکثر پار رہتے ہیں


دلِ گمراہ کو اے کاش پتہ ہوتا
محبت دلچسپ ہے تب تک جب تک نہیں ہوتی


وہ پاس تھی تو زمانے کو دیکھتا ہی نہ تھا
بچھڑ گئی ہے تو پھر سے ہیں دربدر آنکھیں


لے رہا تھا عشق کی چادر محبت کے بازار سے
لوگوں کے ہجوم سے آواز آئی صاحب! آگے سے کفن بھی لے لو


تمہیں ہم چھوڑ دیں لیکن بس اک چھوٹی سی اُلجھن ہے
سنا ہے دل سے دھڑکن کی جدائی موت ہوتی ہے


کتنی نفرت ہے اُسے میری محبت سے
اپنے ہاتھوں کو جلا ڈالا میری تقدیر مٹانے کے لیے


سمیٹ کر لے جاﺅ اپنے جھوٹے وعدوں کے ادھورے قصّے
اگلی محبت میں تمہیں ان کی ضرورت پڑے گی


انا بضد ہے کہ روٹھنے والے کو جانے دو
کوئی اندر سے کہتا ہے کہ منا لو تو اچھا ہے


کب تک بھگتوں میں اب سزا تیری اے عشق
غلطی ہو گئی بس اب معاف بھی کر دے


اتنے انمول تھے کہ خرید نہ سکا کوئی ہم کو
حیراں ہوں کہ تیرے ہاتھوں میں بکا تو بکا کیسے


رات کو پھر تیری یاد نے چھین لیے ہوشوں حواس
فنا ہو جائیں گے اگر یہی سلسلہ رہا


عجیب رشتے ہیں یہ چاہتوں کے بیچ
کوئی کسی کا سب کچھ ہے ،اور کوئی کسی کا کچھ بھی نہیں


ترتیبِ ستم کا بھی سلیقہ تھا اُسے
پہلے پاگل کیا اور پھر مجھے پتھر مارے


اتنے برے بھی نہ تھے جو ٹھکرا دیا تو نے ہمیں
تیرے اپنے کیے پر ایک دن تجھے افسوس ہو گا


نہ زمیں ہے میری قرار گاہ، نہ فلک ہے منزلِ جستجو
بڑی دیر سے ہے سفر میرا تیری یاد سے تیری یاد تک


فرشتوں جیسا تقدس تھا اُس کی آنکھوں میں
یقیں مانیے وہ شخص بھی بے وفا نکلا


اور کیا اِس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں
دل کے زخموں کو چھوا ہے تیرے گالوں کی طرح


لوگ کہتے ہیں بھول کر اُسے نئی زندگی شروع کر
وہ روح پر قابض ہے مجھے کسی کا ہونے نہیں دیتی


شدتِ طلب سے مجھے چاہا، مجھے اپنایا اور چھوڑ گئی
کتنی محنت کی اُس نے صرف ایک دل دُکھانے کے لیے


عجب فیصلہ کیا اُس نے میری زندگی کا زہر دے کر بولی پینا پڑے گا
جب پی لیا تو بولی میرے لیے جینا پڑے گا


اگر کبھی رک جائے میری دھڑکن تو اسے موت نہ سمجھنا
ہوا ہے ایسا کئی بار تجھے یاد کرتے کرتے


چھوڑ یہ بات زخم ملے کہاں سے مجھ کو
زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے


میں تو فنا ہو گیا نقاب میں اُس کی آنکھیں دیکھ کر
نہ جانے وہ روز آئینے میں کیسے دیکھتی ہو گی


مانا کہ میں غریب ہوں یہ بات سچ تو ہے
اگر کوئی اپنا بنا لے تو اُس کا ہر غم خرید سکتا ہوں


اُس میں بات ہی کچھ ایسی تھی
اگر دل نہ دیتے تو جاں چلی جاتی


ہے اک سودا اگر مانو تو دونوں مل کے طے کر لیں
قرارِ زندگی لے لو جوازِ زندگی دے دو


اے دل بھول جا پاگل دنیا سے دل لگانا
وفا کرو تو سزا دیتے ہیں خاموش رہو تو بھلا دیتے ہیں


تو ہزار بار بھی روٹھی تو منا لوں گا تجھے
مگر دیکھ محبتوں میں شامل میری جگہ کوئی دوسرا نہ ہو


سیکھ لو کسی کے پیار کی قدر کرنا
کہیں کوئی مر نہ جائے تجھے یاد کرتے کرتے


اب تو ان آنکھوں سے بھی جلن ہوتی ہے مجھے
کھولی ہوں تو یاد تیری بند ہو تو خواب تیرے


عجب طرح کے لوگ بستے ہیں تیرے شہر میں فراز
مٹ جاتے ہیں انا میں پر محبت نہیں کرتے


سچ ہی کہا تھا کسی نے تنہا جینا سیکھ لو
محبت جتنی بھی سچی ہو ساتھ چھوڑ ہی جاتی ہے


اُس نے توڑا تھا میرا دل تو اُس سے کوئی شکایت نہیں
یہ اُس کی امانت تھا سو اچھا لگا توڑ دیا


ترس جاﺅ گے ہمارے لبوں سے سننے کو ایک ایک لفظ
پیار کی بات تو کیا ہم شکایت بھی نہ کریں گے


مت پوچھ کس طرح سے چل رہی ہے زندگی
اُس دور سے گزر رہے ہیں جو گزرتا ہی نہیں


تیری معصوم زندگی پہ کوئی اعتراض نہیں ہمیں
کس حال میں ہیں اتنا تو پوچھ لیا کر


تجھ بھولنے کا فیصلہ میں روز کرتا ہوں
مگر میرا بس نہیں چلتا تیری وفا کے سامنے


حسن مدہوش ادا، رنگ پہ بھرپور شاداب
اور ان سب کا خلاصہ تیری انگڑائی ہے


کہنا ہی پڑا اُن کو خط پڑھ کے ہمارا
کمبخت کی ہر بات محبت سے بھری ہے


کیوں کرتی ہو ہم پہ اتنا ستم
یاد کرتی نہیں تو آتی کیوں ہو


میری آوارگی لوگو! نہیں بے جا قسم لے لو
اگر تم دیکھتے اُس کو تو میرے ہم قدم ہوتے


میں نے سیکھے ہیں محبت سے محبت کے اصول
سب سے مشکل ہے کسی اپنے کو اپنا کرنا


ٹوٹا ہوا لہجہ اور دبی ہوئی سانسیں
اے عشق میری جان دیکھ اور اپنے کام دیکھ


نہ چھیڑ قصّہ وہ اُلفت کا بڑی لمبی کہانی ہے
میں زندگی سے نہیں ہارا بس کسی پہ اعتبار کیا تھا


نہ آپ یوسفؑ ہے نہ میں مصر کا کوئی تاجر
قیمتِ حُسن کا آپ ذرا کم کیجئے


ہماری تڑپ تو کچھ نہیں دیدارِ یار کے لیے
سنا ہے اُس کے دیدار کو آئینے ترستے ہیں


وہ ابتداءتھی کہ دل میں تیرے سمایا تھا
یہ انتہا ہے کہ اب خاک میں سمایا ہوں


تیرے بغیر بھی ہم جی رہے ہیں لیکن
سزائے موت کے مایوس قیدیوں کی طرح


مجھے بھور میں ہی چھوڑ آتی تو بات تم تک نہ آتی
یہ تیرا ساحل پہ لا ڈبونا کوئی سنے گا تو کیا کہے گا


تجھے خوابوں میں اکثر لوگ چھین لیتے ہیں
تجھے واسطہ محبت کا مجھے سونے نہ دیا کر


آج اُس نے عجیب سوال کیا
مجھ پہ مرتے ہو تو زندہ کیوں ہو؟؟؟


حُسن کا ایک وار بھی سہہ نہ سکا
ڈوب مرنے کی بات ہے اے دل


دل تو کرتا ہے کہ چھوڑ جاﺅں یہ دنیا ہمیشہ کے لیے
پھر خیال آتا ہے کہ تو نفرت کس سے کرے گی میرے جانے کے بعد


سلسہءچاہت تو دونوں کا ایک ہی تھا مگر
وہ میری جاں چاہتی تھی اور میں جاں سے زیادہ اُسے


بے وفائی تو رسمِ دنیا ہے
تو نے بھلا کے کون سا کمال کر دیا


وقت تیزی سے بدل گیا
اور تو وقت سے بھی تیز نکلی


ہم ٹوٹ کے کرتے ہیں میری جان محبت
یہ کام ہمیں حسبِ ضرورت نہیں آتا


نہ کر سکے ہم سوداگروں سے دل کا سودا
لوگ ہمیں لوٹ گئے وفا کے دلاسے دے دے کر


جوبن پہ جوانی ہو اور چاند بھی پورا ہو
کیا تم کو گوارا ہے اُس رات کی تنہائی؟؟؟


قصّہ مختصر ہے میری موت کا
میری زندگی نے ہی چھین لی زندگی میری


بکھری کتابیں، بھیگے اوراق اور تنہائی پسند دل
محبت نے تو میری عمر پہ بھی ترس نہیں کھایا


کیوں رسوا کرتا ہے مجھے سب کے سامنے
اے عشق دیکھ تجھ سے میرا مزاق نہیں

urdu poetry 601 to 700


بہت ہی ناز سے چوما اُس نے ہونٹوں کو مرتے وقت
کہنے لگی کہ منزل آخری ہے کہیں پیاس نہ لگ جائے

دوکھا دیتی ہے معصوم چہروں کی چمک اکثر
ہر کانچ کے ٹکڑے کو ہیرا نہیں کہتے

ہر بات پر مقدر کو قصور دینا اچھی بات نہیں
کبھی کبھی ہم انہیں مانگ لیتے ہیں جو کسی اور کے ہوتے ہیں

ٹوٹا ہوا لہجہ اور دبی ہوئی سانسیں
اے عشق میری جان دیکھ اور اپنے کام دیکھ

وقت نے بدل دیا لوگوں کا معیارِ ذوق
ورنہ ہم وہ تھے جو اکثر یاد آیا کرتے تھے

توں میرے پیار کو نہیں سمجھی تو کیا ہوا
کیا اتنی سی بات پہ تمہیں چاہنا چھوڑ دوں

فقط رہ جاتا ہے محبت کا بھرم
بھلا عمر بھر کے لیے بھی کوئی بنا کسی کا

ناجائز ہے وہ چیز جو نشے میں مبتلا کر دے
یہ سنتے ہی ہوش اُڑ گئے، کیا ہونٹ اُن کے حرام تھے

دمکیاں دیتی ہو جدائی کی
یہ محبت میں بدمعاشی کیسی؟

اے دل بھول جا پاگل دنیا سے دل لگانا
وفا کرو تو سزا دیتے ہیں، خاموش رہو تو بھلا دیتے ہیں

اب تو اِن آنکھوں سے بھی جلن ہوتی ہے مجھے
کھولی ہوں تو یاد تیری بند ہوں تو خواب تیرے

عجب طرح کے لوگ بستے ہیں تیرے شہر میں فراز
مٹ جاتے ہیں انا میں مگر محبت نہیں کرتے

مت پوچھ کس طرح سے چل رہی ہے زندگی
اُس دور سے گزر رہا ہوں جو گزرتا ہی نہیں

ہم سے ساری عمر یہی غلطی ہوتی رہی
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے

خود غرض ہوتا تو ہجوم ہوتا ساتھ
مخلص ہوں اِس لیے تنہا ہوں

کوئی زنجیر نہیں پھر بھی گرفتار ہوں میں
کیا خبر تھی کہ تجھے یہ بھی ہنر آتا ہے

تجھ سے درکار محبت ہے محبت کے عوض
میں نہیں چاہتا تجھ پہ میرا احسان رہے

چاہوں تو بھی نہ مٹا پاﺅنگا تیرا نام دل سے
مٹائے وہ لفظ جاتے ہیں جو غلطی سے لکھے ہوں

عشق کی نوکری راس نہیں مجھ کو
اے حُسن میرا حساب کر دے

کہنے کو تو بہت سی باتیں ہیں اِس دل میں
مختصر لفظوں میں میری آخری خواہش تم ہو

زندگی جینے کی تمنا تو ہم کو بہت ہے
پر کوئی آتا ہی نہیں زندگی میں زندگی بن کر

کبھی کبھی میری آنکھیں رو پڑتی ہیں
میں انہیں کیسے سمجھاﺅں کہ چاہنے سے کوئی اپنا نہیں ہوتا

نہیں آئیں گے تیرے میخانے میں تیری قسم اے ساقی
اک بار پلا وہ جام کہ محبوب یاد نہ آئے

غلطی ہوئی کہ اُسے جان سے بھی زیادہ چاہنے لگے
کیا پتہ تھا کہ میری اتنی پروہ اُسے لاپروہ کر دے گی

غضب کی داستاں ہے جس سے مرضی سن لو
اِس عشق نے قسم کھائی ہے چین لوٹنے کی

خدا کرے کہ ساری عمر مجھے منزل نہ ملے
بڑی مشکل سے وہ راضی ہوئی ہے ساتھ چلنے کو

ملا کے ہاتھ اک روز خود ہی اُس نے دامن چھوڑا لیا ہم سے
وہ جو کبھی آغوش میں سونے کی ضد کیا کرتی تھی

موت تو بس اپنے نام سے بدنام ہے
ورنہ تکلیف تو زندگی بھی بہت دیتی ہے

وہ جواب طلب ہے مجھ سے کہ میں اُسے بھول تو نہ جاﺅں گا
جواب کیا میں دوں اُس کو، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا

اے عشق جنت میں تیری کوئی جگہ نہیں
قاتل ہے توں بڑے معصوم لوگوں کا

عشق تو شغل ہے بے کار جوانوں کا
جن کی نوکری نہیں لگتی وہ دل لگا لیتے ہیں

ہر وقت خیالِ یار
اے دل توں میرا کچھ نہیں لگتا

کیوں کرتی ہو ہم پہ اتنا ستم
یاد کرتی نہیں تو یاد آتی کیوں ہو

کیسے بھلا سکتا ہوں اُس بے وفا کو
موت انسانوں کو آتی ہے یادوں کو نہیں

کبھی آنسو، کبھی سجدے، کبھی ہاتھوں کا اُٹھنا
محبتیں ناکام ہو جائیں تو ربّ ہی یاد آتا ہے

جی تو چاہتا ہے کہ تجھے چیر کے رکھ دوں
اے دل نہ وہ رہے تجھ میں نہ توں رہے مجھ میں

ترس جاﺅ گے ہمارے لبوں سے سننے کو اک اک لفظ
پیار کی بات تو کیا ہم شکایت بھی نہ کریں گے

تیری معصوم زندگی پہ کوئی اعتراض نہیں ہے ہمیں
کس حال میں ہے ہم اتنا تو پوچھ لیا کر

تجھے بھولنے کا فیصلہ تو میں روز کرتا ہوں
مگر میرا بس نہیں چلتا تیری وفا کے سامنے

جان لے لی نہ جانے کتنوں کی
عشق کچی شراب جیسا ہے

میت پہ میری آئی ہے کچھ اِس ادا سے وہ
سب اُس پہ مر مٹے میری لاش چھوڑ کر

کل تک جو کہتے تھے کہ رونقِ محفل تم سے ہے
آج وہ ہم سے اُلجھتے ہیں کہ تم محفل میں نہ آیا کرو

کم یاد کروں اُسے میرے حق میں یہی بہتر ہے
یہ الفاظ مجھے طبیب نے ہاتھ جوڑ کے کہے ہیں

بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے اے عشق
توں دل میں تو آتا ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا

میں محبت میں بچوں کی طرح ہوں
جو چیز میری ہے میں کسی اور کو کیوں دوں

میں کیوں خود سے اُسے پکاروں کہ لوٹ آﺅ
کیا اُسے خبر نہیں میرا دل نہیں لگتا اُس کے بنا

ہمیں یاد آ آ کر بے چین نہ کیا کر
اک یہی ستم کافی ہے کہ میرے پاس نہیں ہو تم

کل کی شام بھی قیامت کی طرح گزری
نہ جانے کیا بات تھی ہر بات پہ تم یاد آئی

اُف وہ نرم لبوں کا دھیرے سے کہنا
کوئی دیکھ نہ لے اب مجھے جانے دو

زندہ رہا تو یاد کرتا رہوں گا
بھول جاﺅں تو سمجھ لینا خدا نے یاد کر لیا

وہ خاموش رہی اور ہم منتظرے شوق رہے
کہ کبھی وہ بھی کہے کہ بن تیرے کہاں ہم سے جیا جائے گا

چھوڑ یہ بات زخم ملے کہاں سے مجھ کو
زندگی اتنا بتا کتنا سفر باقی ہے

کاش میں قاضی ہوتا
اے عشق تیری پھانسی پکی تھی

جاتے ہوئے اُس نے صرف اتنا ہی کہا تھا مجھ سے
زندگی جی لینا ویسے پیار تم اچھا کرتے ہو

وللہ کیا کشش تھی کہ مت پوچھیے
مجھ سے یہ دل بھی لڑ پڑا مجھے باہر نکال بس

گُم سُم آنکھیں، سونی سانسیں، ٹوٹی جڑتی اُمیدیں
ڈرتا ہوں یوں کیسے کٹے گی عمر ہے کوئی رات نہیں

وہ شخص اب پہلے سے بھی زیادہ آوارگی میں رہتا ہے
ہم نے تو سنا تھا کہ لوگ بدل جاتے ہیں محبت کے بعد

نظریں ملی اور اُن کی آنکھیں جھکی
بس اتنی بات تھی اور ہم برباد ہو گئے

شعلےءحسن سے جل جائے نہ چہرے کا نقاب
اپنے رخسار سے پڑدے کو ہٹا بھی دیجئے

آسمان کو چھونے کی بات ہو رہی ہے
لگتا ہے ابھی نیا نیا عشق ہوا ہے

اے عشق تجھے خدا کا واسطہ
یاں یار دے یاں مار دے

محبت کرنی ہے تو پھر حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو پھر لشکر نہیں دیکھے جاتے

آج کوئی نیا زخم نہیں دیا اُس نے
پتہ کرو وہ ٹھیک تو ہے

کبھی اس درد سے گزرو تو یہ معلوم ہو تم کو
محبت وہ بلا ہے جو دلوں کا خون پیتی ہے

کیا تیرا گھر نہیں تھا جو اس دل میں آ بسی توں اے محبت
کیا ملا تجھے ایک ہنستے ہوئے چہرے کو رُلا کر

لے کر زنجیریں ہاتھوں میں کچھ لوگ تیری تاک میں ہیں
اے عشق ہماری گلیوں میں نہ اور پھرو تو اچھا ہے

وہ ہمیں بھول گئی تو کوئی بڑی بات نہیں
آج وہ وقت ہے لوگوں کو خدا یاد نہیں

لوگ شور سے جاگ جاتے ہیں
مجھے تیری خاموشی سونے نہیں دیتی

شوق سے توڑو دل میرا مجھے کیا
تم ہی اس میں رہتی ہو اپنا ہی گھر برباد کرو گی

دکھوں نے میرے دامن کو یوں تھام رکھا ہے
کہ جیسے ان کا بھی میرے سوا اور کوئی نہیں

تم تو کچھ محدود سے لمحوں میں ملی تھی ہم سے
پھر نہ جانے کیوں اتنی فرصت سے تمہیں یاد کرتے ہیں

سوکھے ہونٹوں پہ ہی ہوتی ہیں میٹھی باتیں
پیاس بجھ جائے تو لہجے بھی بدل جاتے ہیں

اس نے پوچھا میرے بغیر جی لو گے
روح پرواز کر چکی تھی وہ سمجھی کہ ہم سوچ رہے ہیں

ہر رات تم اتنا یاد آتی ہو کہ ہم بھول گئے ہیں
کہ یہ راتیں خوابوں کے لیے ہوتی ہیں یاں تیری یادوں کے لیے

اوروں سے بھی وابستگیاں ہیں تھوڑی سی
اُس سے جو سلسلے ہیں وہ انتہا کے ہیں

جو ہو اجازت تو تم سے اک بات پوچھو!
جو ہم سے عشق سیکھا تھا وہ اب تم کس سے کرتی ہو؟

پھر نہیں بستے وہ دل جو اک بار اجھڑ جاتے ہیں
قبریں جتنی بھی سوارو ان میں رونق نہیں ہوتی

اک شخص ہے زندگی جیسا
اور وہی میری زندگی میں نہیں

وہ جو کہتی تھی کہ مجھے محبت کرنی نہیں آتی
اُسے کہنا کہ پھر دل توڑنا کس سے سیکھا ہے؟

بس ختم کرو یہ بازیِ عشق
مقدر کے ہارے کبھی جیتا نہیں کرتے

وہ کیا جانے دل کے رشتوں کی نزاکت کو
دل تو نرم لہجوں سے بھی ٹوٹ جایا کرتے ہیں

مت پیار کر کسی سے اتنا کہ وہ پیار تیری زندگی بن جائے
تجھے یہ بھی پتا ہے کہ زندگی کبھی کسی سے وفا نہیں کرتی

اک معصوم سی دعا ہے ان لبوں پہ
کوئی کچھ بھی کرے پر محبت نہ کرے

ہم تو آئے تھے تیرے شہر میں دل کے زخموں کی دوا لینے
ہمیں کیا خبر تھی کہ یہاں تو دل بھی نکال لیتے ہیں

لبِ تشنگی کی مانند، شبِ روز قطرہ قطرہ
مجھے زہر مل رہا ہے تیری بے روخی سے

بے ساختہ چونک اُٹھتا ہوں نیند سے میں
کسی نے بس اتنا کہا تھا کہ سنو! وہ آئی ہے

آنکھیں کھولتے ہی یاد آ جاتی ہو
تمہیں تو بس ستانے کا بہانہ چاہیے

آغازِ محبت کی داستاں مختصر سی ہے
دورِ جوانی تھا اور اُن کی آنکھوں میں جھانک بیٹھے ہم

ہم اپنی روح تیرے جسم میں ہی چھوڑ آئے ہیں
تجھے گلے سے لگانا تو اک بہانہ تھا

رات خواب میں دیکھا تم بچھڑ گئی ہو
تعبیر بتاتی ہے کہ میں مر جاﺅ گا

یہ جو ڈوبی ہے میری آنکھیں اشکوں کے دریا میں
یہ مٹی کے پُتلوں پر بھروسے کی سزا ہے

کمزور پڑ گیا ہے مجھ سے تیرا تعلق
یا پھر کہیں اور سلسلے مضبوط ہو گئے ہیں

ہمدردی نہ کرو مجھ سے اے میرے ہمدرد دوستو
وہ بھی بڑی ہمدرد تھی جو درد ہزاروں دے گئی

بھول تو جاﺅں میں تمہیں
مگر میرے پاس رہے گا کیا؟

عجیب رشتہ رہا اُس شخص سے ساقی
نہ نفرت کی وجہ ملی، نہ محبت کا صِلہ

صرف تیرے عشق کی غلامی میں ہے آج
ورنہ یہ دل اک زمانے تک نواب رہا ہے

اے عشق دل کی بات کہوں بُرا تو نہیں مانو گے؟
بڑی راحت کے دن تھے تیری پہچان سے پہلے

کاش اُس کا چہرہ روز آتا ہمارے خواب میں
مر جاتے مگر نیند سے اُٹھنے کی جرات نہیں کرتے

چلو ڈھنڈتا ہوں کوئی ایسی وجہ کہ دل بہل جائے
اگر پھر بھی نہ سنبھل پایا تو پھر کیا لوٹ آﺅ گی تم

یہ لفظوں کی شرارت ہے ذرا سنبھال کے لکھنا تم
محبت لفظ ہے لیکن یہ اکثر ہو ہی جاتی ہے